جج صاحبان پر بڑھتے حملے!

چیف جسٹس این وی رمن نے پچھلے ہفتے کہا کہ حکام کی الگ لکشمن ریکھا کو پویتر مانا جاتا ہے اور کبھی کبھی عدالتیں انصاف کے مفاد میں مداخلت کر نے کیلئے مجبور ہوتی ہیں جس کا ارادہ انتظامیہ کو خبر دار کر نے کا ہوتا ہے تاکہ اس کے رول کو ہتھیا نے کیلئے اور نہ ہی اسے اس طرح پیش کیا جانا چاہئے کہ عدلیہ دوسرے اداروں کا نشانہ بن رہی ہے ۔انہوں نے عدلیہ میں مداخلت کو انتظامیہ کو نشانہ بنانے کی شکل میں پیش کر نے کی کسی بھی کو شش کو لیکر آگاہ کیا اور کہا کہ یہ پوری طرح سے غلط ہے ۔ وہ اگر اسے بڑھا دیا گیا تو یہ جمہوریت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا ۔ سپریم کورٹ رجسٹری کے ذریعے منعقد یوم آئین تقریب میں جسٹس رمن نے خا ص طور سے سوشل میڈیا میں جج صاحبان اور عدلیہ پر حملوں کا اشو اٹھا یا اور کہا کہ وہ اسپانسر اور طے شدہ ہوتے ہیں اس تقریب میں وزیر اعظم نریند ر مودی بھی موجود تھے ۔ جج موصوف نے کہا کہ عدلیہ کیلئے سنگین تشویش کا موضوع ججوں پر بڑھتے حملے ہیں ۔ جوڈیشل فسروں پر فزیکل حملے ہو رہے ہیں میڈیا خا ص کر سو شل میڈیا میں عدلیہ کو نشا نہ بنا یا جا رہا ہے ۔ یہ حملے منظم محسوس ہوتے ہیں قانون لاگو کر والی ایجنسیوں خاص طور سے مر کزی ایجنسیوں کو ایسے پری پلان حملوں سے موثر طریقے نمٹنے کی ضرورت ہے ۔سر کاروں کو ایک محفوظ بنانے کی امید کی جاتی ہے تاکہ جسٹس اور عدلیہ افسر نڈر ہو کر کام کر سکیں ۔ جسٹس رمن نے خاص طور سے نچلی عدالتوں میں بڑی تعداد میں التوی مقدموں کے ٹرینڈ کو خطرناک قرار دیا وہیں عدالتیں تو صر ف اس کے ریکارڈ کو بنیا د بنا کر حل نکالتی ہیں ۔ متضاد طور سے مختلف پیچیدہ اسباب سے باقاعدہ نتیجہ نکالے جانے کیلئے برسوں تک جد جہد کر تی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے ذریعے کھینچی گئی لکشمن ریکھا پویتر ہے لیکن کبھی کبھی عدالتوں کو انصا ف کے مفاد میں مداخلت کر کیلئے مجبور ہو نا پڑ تا ہے جس کاارادتاً منتظمہ کو آگاہ کر نے کیلئے ہو تا ہے نہ اس کے روڈ نقصان پہونچانے کیلئے اور نہ ہی اسب اس طرح پیش کیا جانا چاہئے ۔ عدلیہ دوسرے اداروں کا نشا نہ بن رہی ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟