ووٹ پر چوٹ کرنی ہوگی !

کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے جنوری میں غازی پور بارڈر پر کسان آندولن کی جس فصل کو اپنے آنسو¿ں سے سینچا تھا اتوار کو وہ اترپردیش کے مظفر نگر میں لہرا ٹھا ی مرکزی سرکار کے تین زرعی نئے قوانین کے خلاف منعقد مہا پنچایت میں دیش بھر کے کسانوں نے نعریٰ دیا حالانکہ مہا پنچایت میں کسان نیتا سیاسی کھیتی کرتے نظر آئے بھارتی کسان یونین کے قومی ترجمان راکیش ٹکیت جم کر گرجے اور کہا کہ اس سرکار نے پورے دیش کو بیچ دیا ہے اب لڑائی مشن یوپی اور اتر ا کھنڈ کی نہیں بلکہ دیش کو بچانے کی ہے یہ آندولن دیش کے کسانوں کے زور پر لڑا جائے گا ہم وہ نہیں ہیں جو جھولا اٹھا کر چل دیں گے میں کسان ہوں اور کسان ہی رہوں گا اور کسانوں کی حق کی لڑائی کے لئے مرتے دم تک لڑوں گا وہیں مہا پنچایت میں پہونچی میدھا پاٹکر نے کہا کہ ہمیں ووٹ پر چوٹ کرنی ہوگی ۔ مودی نے نوٹ بندی کی تھیم پر ہمیں ووٹ بندی کرکے مودی اور یوگی کو ہرانا ہے مظفر نگر سے مشن یوپی کی شروعات ہو چکی ہے ہم بنارس ، لکھنو¿ ، گورکھپور میں بھاجپا کے خلاف کمپین کریں گے ۔ بھاجپا کے لوگ توڑنے کی بات کر رہے ہیں ہم جوڑنے کی بات کریں گے دوسری طرف مہا پنچایت کے اسٹیج پر سیاسی لیڈروں کو جگہ نہیں دی گئی اسٹیج پر ہریانہ کے 18یوپی اور اتراکھنڈ ، اور مدھیہ پردیش کے بارہ کسان لیڈروں کو بٹھایا گیا پنچاب کے 31کسان لیڈروںکو بھی جگہ دی گئی وہیں مہا پنچایت کے دوران پولس انتظامیہ بھی چوکس رہا اور چپے چپے پر 4ہزار پولس ملازم اورپیرا ملٹری فورس کے جوان طعینات کئے گئے تھے ان سب کے درمیان بھاجپا ایم ورون گاندھی کے ویڈو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ہے مظفر نگر میںاحتجاجی مظاہرے کے لئے آج لاکھوں کسان اکٹھے ہوئے ہیں وہ ہمارے اپنے ہیں میں ان کے ساتھ با عزت طریقے سے پھر بیت چیت شروع کرنی چاہئے ان کے درد کو سمجھنا چاہئے کسی سمجھوتے تک پہونچنے کے لئے ان کے ساتھ مل کر کام کر نا چاہئے مہیندر سنگھ ٹکیت کی ووٹ کلب ریلی (1997)کے بعد یہ سب سے بڑی مہا پنچایت تھی بھارتی کسان یونین کے بجائے پنچایت متحدہ کسان مورچہ کو ہی آگے رکھا گیا وہیں بھاجپا ایم پی ورون گاندھی کے بیان سے سیاست گرما گئی ہے ہمارا خیال ہے کہ پچھلے آٹھ مہینوں سے احتجاج کر رہے کسانوں کے مسئلوں کو کا حل ہونا چاہئے بھارت سرکار کو ان کی جائز مانگ مان کر اس تحریک کو ختم کرانا چاہئے ۔ سرکار کو اڑیل رویہ ترک کرنا چاہئے آخر یہ کساندیش کے ان داتا ہیں اور اگر ان کے مسئلوں پر ہی غور نہیں کیا جائے گا تو پریشانیاں بڑھیں گی اس لئے بلا تاخیر بھارت سرکار کو کسانوں سے بات چیت پھر شروع کرکے قابل قبول حل نکالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟