دہلی میں کورونا مریضوں کا اوپر والا ہی مالک ہے

زندگی سے بڑا کوئی بنیادی حق نہیں ہوتا۔ دہلی میں اپنی بدانتظامی اور کچھ ٹال مٹول کی پالیسی کے سبب اس حق کو خطرے میں ڈال دیا ہے، حالات کنٹرول سے باہر ہوگئے ہیں۔ اگر آپ صرف دہلی سرکار کے بیانات پر یقین کریں گے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ دہلی میں کورونا مریض پورے ہیلتھ محکمے کی ترجیح ہیں اور ان کا اچھا علاج چل رہا ہے۔ دہلی دیش کی راجدھانی ہے اور یہاں جو ہوتا ہے وہ دیش کا آئینہ ماناجاتا ہے لیکن حقیقت الگ ہی بیان کرتی ہے۔ آپ کسی سرکاری، پرائیویٹ ہسپتال میں چلے جائیں گھروں میں کورینٹائن مریضوں سے ملیں تو آپ کی غلط فہمی منٹ بھر میں دور ہوجائے گی۔ آپ کہیں گے دہلی سرکار جھوٹ بول رہی ہے۔ کووڈ انفیکشن صرف بھگوان بھروسے ہے۔ آپ دہلی سرکار کے کسی ہیلپ لائن نمبر پر فون کریئے تو عام طورپر مدد نہیں ملے۔ منڈاولی کے ایک مریض کی رپورٹ پوزیٹیو آگئی جتنے نمبر دستیاب تھے انہوں نے فون کیا کوئی جواب نہیں ملا۔ کوئی ہیلتھ کرمی نہیں آیا۔ جس میں ایک شخص کے ہاتھ کاغذ منگادیئے جس پر انہوں نے دستخط کردینا تھا۔ ہم گھر میں کورینٹائن رہیں گے کہاگیا۔ اب وہ ٹھیک ہے لیکن کوئی بتانے والا نہیں کہ کیا کریں۔ 14دن گزرگئے پورے خاندان ٹیسٹ ہونا چاہئے نہیں ہوا۔ کوئی کاو¿نسلنگ نہیں ہوئی۔ یہ اکیلا معاملہ نہیں صد فیصد گھروں میں کورینٹائن نہ ہونے والوں کا یہی حال ہورہا ہے۔ ہسپتالوں کا حال جاننے کے لئے جے پرکاش نارائن ہسپتال چلے جائیے آپ کو وہاں لوگ روتے بلکتے دکھائی دیں گے۔ ان کے رشتہ دار بھرتی ہیں یا نہیں اس کی اطلاع ملنے تک کئی دن لگ رہے ہیں۔ موت ہونے پرلاش تک آسانی سے نہیں مل پاتی۔ دہلی کے سارے سرکاری ہسپتالوں کی ایک ہی حالت ہے۔ مرکز نے ہیلتھ ملازم کی حفاظت کے لئے قانون بنا دیئے لیکن ان کی ذمہ داری طے نہیں ہوئی اور ریاستی سرکار اپنی ذمہ داری کے بجائے جھوٹ، غلط اور فریبی سے کام کررہی ہے۔ ابھی آڈیو وائرل ہوا ہے جس میں کجریوال سے صفدرجنگ ہسپتال کا ملازم کہہ رہا ہے کہ یہاں تو موت ہی دکھائی دے رہی ہے کوئی انتظام نہیں ہے جتنے لوگ مارے گئے اتنے سرکار بتا نہیں رہی ہے۔ دہلی سرکار کو اپنے کاموں کو سدھارنا ہوگا۔ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوکر عام آدمی پارٹی کی سرکار کو اپنے ووٹروں کو ہسپتالوں میں مریضوں کی حالت پر جواب دینا چاہئے۔ جو نہیں دے رہی ہے۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟