مزدوروں کو سپریم کورٹ سے راحت

گھر جانے کے لئے دومہینے س دردر بھٹکتے مزدوروں کے لئے جمعرات کے روز سپریم کورٹ کو حکم جاری کرنا پڑا۔ یہ اس وقت کیا جب اس نے دیکھا کہ سرکار ان کے لئے کچھ نہیں کررہی ہے اور ان مزدوروں کی پریشانیوں کو سمجھتے ہوئے سپریم کورٹ ومرکزاور ریاستی حکومتوں سے کہاہے کہ اپنے گاو¿ں کی طرف لوٹ رہے شرمک ٹرینوں اور بس کا کرایہ نہ لیں۔ سڑک پر مزدوروں کے سیلاب کوروکا جائے اور انہیں قریب کے شیلٹر ہوم میں لے جاکر رکھا جائے اور جب تک ان کا خرچ سرکار برداشت کرے۔ اور سفر کے لئے مزدوروں کو راستے میں ریلوے کو کھانا دینا ہوگا۔ خیر دیر سے ہی صحیح لیکن سپریم کورٹ کی مداخلت قابل خیر مقدم ہے جوکام سرکاروں کو کرنا چاہئے تھا وہ اب عدالتیں کررہی ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ سرکاریں پنگو ہوچکی ہیں اور اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہوگئی۔ شاید اس لئے عدالتوں کو سخت فیصلے لینے پڑرہے ہیں۔ سب سے قابل رحم حالت ہندوستانی ریلوے کی ہے جو مزدوروں کو ان کے منزل مقصود تک پہنچانے کے لئے جو شرمک ٹرینیں چلائی ہیں وہ بہت ہی خراب ہیں جو ڈراو¿نی کہانیاں سامنے لارہی ہیں۔ بہار جانے والی ایک ٹرین میں ایک ننھا بچہ اپنی ماں کو جگانے کی کوشش کررہا تھا جو سفر کے دوران بھوک، پیاس اور گرمی سے بحال ہوکر دم توڑ چکی تھی۔ حالانکہ پرواسی شرمکوں کو محفوظ ان کے گھر پہنچانا ساتھ یہ بھی دیکھنا کہ انہیں کورونا وائرس کا انفیکشن نہ ہو۔ یہ بہت چیلنجز بھرا کام ہے۔ فطری طور سے اس مشکل کام کو ہندوستانی ریلوے کو سونپا گیا ہے۔ عدالت نے کہاکہ پرواسی مزدوروں کے رجسٹریشن سسٹم کو چست کرنا ہوگا ریاستی سرکار انتظام کرے جس سے مزدورجلد سے جلد ریل اور بس پکڑ سکیں اور سڑک پر چل رہے مزدوروں کوقریبی شیلٹر ہوم لے جایاجائے۔ عدالت نے یہ بھی کہاکہ ریاستی سرکار نے ہی اپنے مزدوروں کو واپس بلانے کی درخواست کرتی ہے۔ ریلوے کو فوراً سہولت دستیاب کرانی ہوگی۔ سپریم کورٹ میں اس معاملے کی اگلی سماعت 5جون کو مقرر کی ہے۔ بڑی عدالت کے مداخلت کے بعد اب اس سسٹم میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ہوگی اور پرواسی مزدوروں کا سفر آسان اور محفوظ ہوگا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟