دنگے اور آگ زنی کی زد میں 30امریکی شہر

امریکہ میں جم کر دنگے ہورہے ہیں اور یہ آگ زنی امریکہ کے بیس ریاستوں تک پھیل چکی ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اس چناوی سال میں بہت پریشان ہیں۔ ان دنگوں کی شروعات امریکہ کے منی سوٹا ریاست منی پولس میں ایک سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی موت سے شروع ہوئے۔ گلائیڈ پولیس کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس کے مرنے کے بعد پرتشدد مظاہرے ہوئے اور مظاہرین نے دکانوں کو آگ لگادی، دنگوں پر قابو پانے کے لئے پولیس حکام کو آنسو گیس کے گولے چھوڑنے پڑے۔ ربڑ کی گولیاں چلانی پڑیں۔ جمعرات ایک پولیس اسٹیشن میں بھی آگ لگادی گئی یہ مظاہرے 20ریاستوں میں پھیل گئے۔ انہوں نے نامی گرامی کمپنیوں کے شوروم لوٹے۔ بتادیں لوئی بتون کے ایک بیگ کی قیمت ڈھائی لاکھ سے تین لاکھ روپے قیمت ہے۔ یہ شوروم بھی لوٹ لیاگیا۔ معاملہ اس وقت شروع ہواتھا جب ایک سیاہ فام جارج فلائیڈ کو پولیس نے پکڑا اور نیچے گراکر اس کی گردن دبادی۔ اس واقعہ کا ویڈیو وائرل ہوا۔ جس میں زمین پر گرے سیاہ فام شخص کی گردن پر پولیس ملازم گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا ہے۔ فلائیڈ یہ کہتے بھی سنائی دے رہا ہے کہ وہ گردن دبنے سے سانس نہیں لے پارہا ہے۔ لیکن پولیس نے نہیں سنی۔ اور اس نے گردن پر اپنا دباو¿ بنائے رکھا تو تھوڑی دیر بعد اس کی طبیعت بگڑگئی اس کے بعد اسپتال لے جایا گیا۔ جہاں سے مردہ قرار دے دیا۔ اس خبر کے بعد شکاگو، لاس اینجلس سمیت امریکہ متعدد شہروں میں تشدد کا جو دور شروع ہوا وہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ حالات خراب ہوگئے ہیں۔ جارجیہ کے گورنر منی سوٹا، اٹلانٹا اور درجنوں شہروں میں تشدد بھڑکنے کے بعد فوج کی تعینات کے لئے ایمرجنسی لگادی گئی اور منی پولس اور آس پاس کے شہروں میں نیشنل گارڈ (فوج) کے پانچ سو سے زیادہ جوان تعینات کئے ہیں۔سننے میں آیا ہے کہ وہائٹ ہاو¿س کے باہر بھی بڑی تعداد میں سیاہ فام لوگوں مظاہرے کئے ہیں جو امریکی انتظامیہ کے لئے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟