ساڑھے تیرہ کروڑ نوکریاں کورونا نگل جائے گا

کورونا انفیکشن وبا کے سبب جنوری۔ مارچ کے دوران دنیا بھر میں اقتصادی سرگرمیاں سست رہی ہیں جس کا اثر ہندوستانی معیشت پر بھی پڑاہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے 2019-20 میں اقتصادی ترقی شرح پانچ فیصدی رہنے کا اندازہ لگایا تھا جبکہ این ایس او نے اس سال جنوری اور فروری میں جاری پہلے اور دوسرے ایڈوانس تخمینے میں اضافی شرح 5فیصدی ہی تجویز کیا تھا لیکن کورونا وبا کی وجہ سے جنوری۔مارچ 2020کے دوران چین کی معیشت میں 6.8 فیصدی گراوٹ آئی۔ بھارت میں جی ڈی پی میں جم کر غوطہ کھایا۔ جی ڈی پی اضافہ پچھلے برس 2019-20 کی چوتھی سہ ماہی (جنوری۔ مارچ) میں گھٹ کر تین اعشاریہ ایک فیصدی پر آگئی۔ اس سے پچھلے مالی برس کے برابر سہ ماہی میںیہ پانچ اعشاریہ سات فیصدی تھی۔ نیشنل ٹیلی آفس (این ایس او) نے جمعہ کو یہ جانکاری دی ہے کہ اس سال پورے مالی برس 2019-20 میں جی ڈی پی کی اضافی شرح گرکر 4.2 فیصدی رہ گئی ہے۔ وزارت تجارت کے ذریعے جاری اعدادوشمار کے مطابق کورونا انفیکشن کی وجہ سے اور لاک ڈاو¿ن کے چلتے اپریل میں 8بنیادی صنعتوں کا پروڈکشن 38.1فیصد گھٹا۔ لاک ڈاو¿ن کی بات کریں تو کورونا وائرس نے ہمارے دیش میں نوکریوں پر بھاری اثر دکھایا ہے۔ اس وبا سے پوری دنیا کی معیشت خستہ خال ہونے کا اندیشہ ہے، مانا جارہا ہے کہ اگر حالات ایسے ہی رہتے ہیں تو ہمارے دیش میں کورونا وائرس 13.5 کروڑ نوکریاں نگل جائے گا۔ اس وبا کا سب سے زیادہ اثر سیاحت، ہاسپیٹلٹی، ٹرانسپورٹ اور تعمیراتی سیکٹر پر پڑے گا۔ ان سیکٹروں میں بڑے پیمانے پر سنکٹ کی تلوار لٹکنی شروع ہوگئی اور نوکریوں کا سب سے زیادہ خطرہ ان سیکٹروں میں بڑھا ہے جہاں ملازمین کو ریگولر تنخواہ نہیں ملتی ہے۔ ٹورزم صنعت ایک ایسا ہی سیکٹر ہے اس میں زیادہ تر لوگ ٹھیکے پر کام کرتے ہیں دکانوں ہوٹلوں میں اور ٹریول ایجنسیوں میں کام کرنے والے لاکھوں لوگوں کی روزی روٹی پر خطرہ بڑھ گیا ہے۔ مانا جارہا ہے کہ ٹورزم اور ہاسپیٹلیٹی سیکٹر میں ڈھائی کروڑ لوگوں کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا اور وبا کے چلتے لاکھوں لوگ گھروں میں بند ہیں۔ ہوائی وٹریول ایجنسیاں بند ہیں اور اگلے چھ مہینے تک سیاحتی صنعت کے پھلنے پھولنے کے کوئی آثار بھی نہیں ہیں۔ اور یہ سیکٹر پہلے سے ہی مندی کی مار جھیل رہا ہے۔ اس نے پورے طریقے سے کمر توڑ دی ہے اور مانگ میں کمی ہے، پیداوار بند ہے امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں پڑتی۔ جس وجہ سے لاکھوں لوگوں پر تلوار لٹک رہی ہے حالانکہ حکومت نے اس سیکٹر کو مندی سے نکالنے کے لئے پیکیج تو دیا ہے لیکن اس سے یہ صنعت کتنی پھل پھول پاتی ہے یہ وقت ہی بتائے گا۔ اسی طریقے سے حالات ٹرانسپورٹ سیکٹر بھی ہیں۔ یہاں لوگوں کی نوکریوں پر خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ایسے ہی صنعتی دنیا کے ذرائع بتاتے ہیں کہ ہمارے دیش میں فیکٹریوں میں کروڑوں لوگ دہاڑی مزدوری کی شکل میں کام کرتے ہیں ان سب پر بھی خطرے کے بادل ہیں۔ کل ملاکر حالات بہت خراب ہیں۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟