کورونا وائرس اور چینی کھانہ پینا

پاکستا ن کے سابق تیز گیند با ز شعیب اختر اپنی بے باک رائے زنی کے لئے مشہور ہیں ۔ان کا کورونا وائرس پر زبردست تبصرہ ہے ۔انہوںنے پوری دنیا میں پھیلے کورنا وائرس پر چین کے لوگوں کو کافی کھری کھوٹی سنائی ہے ۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن میں اس وائرس کو ایک وبا قرار دے دیا ہے ۔دنیا بھر کے تمام کھیل ،پروگرام پر بھی اثر پڑ رہا ہے ۔اور کئی بہت سے اسپورٹس ایونٹ اس کے چلتے یا تو ملتوی کر دئے گئے ہیں یا پھر منسوخ کر دیے گئے ہیں ۔شعیب اختر نے یوٹیو ب چینل پر ایک ویڈیو شیئر کیا ہے جس میں اس وبا پر اپنی بات رکھی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ اتنا کچھ کھانے کے لئے ہے تو چین کے لوگوں کو چمگادڑ ،کتا،بلی،اور یہاں تک کہ پچھو کھانے کی کیا ضرورت ہے ۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے فیصلہ لیا کہ پاکستان سپر لیگ کے بچے میچ لاہور میں ہوں گے ۔اور یہ سبھی میچ بغیر ناضرین کے موجودگی میں کھلے جائیں گے جس میں سیمی فائنل اور فائنل میچ بھی شامل ہے ۔17-18مارچ کو ان میچوں میں شامل کھلاڑی سیمی فائنل میچ کھیلیں گے اور 22مارچ کو فائنل میچ کھیلا جائے گا ۔شعیب اختر کا کہنا تھا کہ میرے غصے کی سب سے بڑی وجہ پی ایس ایل ہے ۔پاکستان میں کرکٹ سالوں بعد لوٹا ہے اور پہلی بار پوری پی ایس ایل سیزن سریز پاکستان میں کھیلی جا رہی ہے ۔لیکن کرونا کی وجہ سے خطرہ ہے ۔جس وجہ سے غیر ملکی کھلاڑی پاکستان چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔اور میچ خالی اسٹیڈیم میں کھلیے جائیں گے ۔شعیب اختر نے چین کے لوگوں کو جم کر لتاڑا کہ آج جو وائرس پھیلا ہے ان کی غلط چیزوں کے کھانے کی عادتوں کی وجہ سے پھیلا ہے اور اس کے سبب آج دنیا بھر کے لوگ پھیلے وائرس کے خطرے کی دہشت میں ہیں ۔میری سمجھ میں نہیں آتا کہ چین کے لوگوں کو چمگادڑ جیسی چیزیں کھانی ہیں اور ان کا خون پینا ہے ۔یا پیشاب پینا ہے ۔مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ایسی چیزیں کیسے کھا جاتے ہیں ؟آج اس وائرس کی وجہ سے دنیا میں پوری سیاحات پر برا اثر پڑ رہا ہے اور بہت سے ملکوں کی معیشت تک گر گئی ہے ۔پوری دنیا مشکل میں پھنس گئی ہے ۔میں چینی لوگوں کے خلاف نہیں ہوں لیکن میں جانوروں کے کھانے کے خلاف ہوں ۔میں ان کی عادت پر انگلی اُٹھا رہا ہوں لیکن میں یہ نہیں کہتا کہ آپ چینی لوگوں کا بائیکاٹ کریں لیکن ایسا قانون ہونا چاہیے کہ وہ اپنی من مرضی سے سماج میں نا پسندیدہ غضاءکے طور پر کچھ بھی کھا لیں ۔کرونا وائرس انفیکشن چین کے شہر وہان سے شروع ہوا تھا ۔اور اب یہ آہستہ آہستہ دنیا کے سو سے زیادہ ملکوں میں اپنی پکڑ بنا چکا ہے ۔اور اس سے 1.2لاکھ سے زیادہ لوگ اس وائرس سے متاثر ہیں ۔ہم شعیب اختر کے خیالات سے متفق ہیں ۔لیکن کسی کے کھانے یا نہ کھانے پر بندش نہیں لگا سکتے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!