بیٹا کسی کا بھی ہو ،غرور ،بدسلوکی برداشت نہیں !

 پچھلے کچھ دنوں میں الگ الگ ریاستوں میں پولیس ،انتظامیہ اور عین سازیہ سے وابستہ افسران پر حملوں کے واقعات سامنے آئے ہیں انہیں محض کسی اتفاقی عمل مان کر درکنار کرنا شاید صحیح نہیں ہوگا ۔تازہ مثال مدھیہ پردیش میں بھاجپا کے جنرل سیکریٹری کیلاش ورگیہ کے لڑکے ممبر اسمبلی آکاش ورگےہ کی ہے جنہوں نے پچھلے دنوں اندور میں میونسپل کارپوریشن کے ایک افسر کو کرکٹ کے بیڈ سے پیٹا تھا ۔یہ تکلیف دہ بات ہے کہ ایسا کرنے کے بعد اسے صحیح ٹھہرایا جانے لگا کیونکہ اس واردات کا ویڈیو عوام کے سامنے آگیا اس لئے دیش بھر میں اس کی تلخ نکتہ چینی ہوئی اور دوسری طرف ان تنقیدوں کی فکر کرنے کے بجائے حملہ کرنے والے اس ممبر اسمبلی کو ضمانت ملنے پر بھاجپا ورکروں نے الٹا جشن منایا جیسا کہ وہ بہت اچھا کام کرکے جیل سے رہا ہوا ہو ۔ٹھیک اسی طرح دوسرا واقعہ مدھےہ پردیش کے ستنا ضلع کے رام نگر میں ہوا جہاں وہا ں بھی بھاجپا کے ایک نیتا نے ایک چیف ایگزیٹیوافسر کو بری طرح پیٹا جس میں وہ سنگین طور پر زخمی ہوگئے ۔اس کے علاوہ تلنگانہ میں بھی حکمراں راشٹریہ سمیتی کے ایک ممبر اسمبلی کی رہنمائی میں بھیڑ نے ایک خاتون محکمہ جنگلات کی افسر پر قاتلانہ حملہ کردیا ۔ان سبھی واقعات میں متاثرہ افسر اپنے عہدے کے دائرے میں اپنی ذمہ داری کو نبھارہے تھے لیکن نیتاو ¿ں یا ان کے رشتہ داروں نے اپنے رسوخ کی دھونس دکھا کر ان پر حملہ کردیا ۔سوال یہ ہے کہ کس بات کا غرور ان نیتاو ¿ں کے سرچڑھ کر بول رہا تھا کہ کسی بات کی شکایت کرنے پر قانون کا سہارا لینے کے بجائے انہوں نے افسروں پر ہی حملہ کرنا ضروری سمجھا ؟کیا ےہ سمجھتے ہیں کہ ان کا رسوخ او رپارٹی ان کی حفاظت کرے گی؟یہ اچھا ہوا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کرکٹ کے بلے سے پیٹنے والے بھاجپا ممبر اسمبلی آکاش ورگےہ پر بیحد تلخ ناراضگی اپناتے ہوئے کہا کہ غرور اور بدسلوکی قطعی برداشت نہیں ہوگی ۔بھاجپا پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں انہوں نے آکاش کا نام لے بغیر کہا کہ بیٹا کسی کا بھی ہو من مانی نہیں چلے گی پارٹی نیتاو ¿ں کی پیڑیوں کی سخت محنت کے بعد کامیابی ملی ہے اور اس واقعہ سے پارٹی کی ساکھ بگڑی ہے اور پارٹی کے نام پر ایسی بدسلوکی ناقابل برداشت ہے ایسے نیتاو ¿ں اور ان کی حمایت کرنے والوں کو پارٹی سے نکالا جانا چاہئے ۔اپنے خطاب کے دوران کیلاش وجے ورگیہ بھی موجود تھے ان کی اس حرکت سے ناراض میٹنگ میں صاف صاف کہا کہ ایک ممبر اسمبلی کے کم ہوجانے سے آخر کیا فرق پڑے گا انہوں نے کہا درخواست اور دنادن میں ۔۔۔یہ کونسی زبان ہے ایسے مسئلے کو ختم کرنا آسان نہیں ہوگا ۔پھر بھی اس مسئلے کو ختم کرنے کی سب سے بڑی امید وزیر اعظم نریند رمودی سے ہی کی جاسکتی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ کہ مودی کو سیدھے عوام سے وسیع حمایت حاصل ہوئی ہے ۔اب یہ دیکھنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ان قصور وار لیڈروں پر کیا کارروائی کرتی ہے ؟ایک بار سخت کارروائی ہوجائے تو شاےد ےہ مغرور نیتا قابو میں آجائیں ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!