چلے تھے بھاجپا کو گھیرنے خود ہی چوپٹ ہوگئے
عام چناﺅ سے پہلے تک خود کو مستقبل کا کنگ میکر پیش کر رہے ٹی ڈی پی کے چیف چندر بابو نائیڈو کو اب جھٹکے پر جھٹکے لگ رہے ہیں ریاست میں جہاں اپنا اقتدار کھویا اور لوک سبھا چناﺅ میں بھی پارٹی ہار گئی اس کے بعد اب ان کی پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی ہے راجیہ سبھا میں ان کے چھ میں سے چار ایم پی بھاجپا میں شامل ہو گئے ہیںیہ چاروں ایم پی نائیڈو کے بھروسہ تھے ۔ظاہر ہے کہ چندر بابوکی مشکلیں اور بھی بڑھ سکت ہیںانہوں نے چناﺅ سے پہلے اپوزیشن کو متحد کرنے کی کوشش کی تھی اور اس کے لئے چناﺅی دورے بھی کئے تھے سرکار جہاز لے کر کولکاتہ اور دہلی کے چکر لگاتے رہے نائیڈو چناﺅ میں تو نا کام رہے اس کی کئی وجہ تھی جیسے اپوزیشن میں کئی پارٹیاں دیگر ریاستوں میں ایک دوسرے کی مخالف تھیں اسی دوران تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے سی آر راﺅ بھی فیڈرل مورچہ کی مہم چلا رہے تھے ادھر نائیڈو اپوزیشن کو متحد کر دہلی میں بھاجپا کو گھیرنے کی کوشش میں تھے ادھر کے سی آر راﺅ نے جگن موہن ریڈی کو ہمایت دے کر نائیڈو کی مشکلیں ان کے گھر میں ہی بڑھا دیں سیاسی واقف کاروں کا کہنا ہے کہ ان کی مشکلیں ختم نہیں ہونے والی ہیں ۔ریاست میں نئی جگن موہن ریڈی سرکار مسلسل ان کے فیصلوں کا جائزہ لے رہی ہے اور کئی فیصلوں کو منسوخ بھی کر دیا ہے ۔خبریں تو یہاں تک ہیں کہ کچھ فیصلے کو لے کر چندر بابو نائیڈو کو قانونی کٹگھرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے اور ریاست میں اپنی موجودہ حالت کے لئے نائیڈو بھی کم ذمہ دار نہیں ہیں ۔آندھر اپردیش کو خصوصی درجے کو لے کر بھاجپا سے ہاتھ ملایا اور سرکار میں شامل ہو گئے تھے لیکن جب یہ درجہ نہیں ملا تو وہ اپوزیشن کو متحد کرنے کی مہم میں لگ گئے چناﺅ سے پہلے کانگریس کے ساتھ ہوگئے اب جبکہ آندھر اپردیش میں کانگریس کو ریاست کی تقسیم کے لئے ذمہ دار مانا جاتا ہے تو غلط وقت پر لئے گئے فیصلوں کے سبب چندر بابو نائیڈو پردیش میں ہی نہیں بلکہ پارٹی کے اندر بھی غیر مقبول ہو گئے ہیں نائیڈو حالانکہ ایسے حالات سے پہلے بھی دو چار ہو چکے ہیں ۔2004اور 2009میں بھی ہار کا سامنا کرنا پڑا تھا سوال یہ ہے کہ کیا وہ پھر سے کھڑے ہو پائیں گے ۔بہرحال ٹی ڈی پی کے چار ممبران پارلیمنٹ کے پالا بدلنے سے ایوان بالا میں اپوزیشن کو بڑا جھٹکا دیا ہے اس ردو بدل کے باوجود بھاجپا اور این ڈی اے بے شک اکثریت سے راجیہ سبھا میں دور ہوں مگر اہم پارٹیوں کے ٹوٹنے سے نمبروں کی طاقت کے بے حد قریب پہنچ گئی ہے ۔تین طلاق شہریت ترمیم جیسے اہم بلوں کو پاس کرانے کے لئے بھاجپا کو بی جے ڈی وائی ایس آر کانگریس اور ٹی آر ایس جیسی پارٹیوں کو قریب لانا ہوگا ایوان بالا میں اکثریت نہ ہونے کے سبب مودی سرکار ون درجن بھر بلوں کو قانونی حیثیت نہیں لا پائی تھی ٹی ڈی پی کے چھ ممبران میں سے دو تہائی ممبران نے ایک الگ گروپ بنایا اور پھر بھاجپا میں شامل ہوئے اس لئے ان چاروں پر دل بدل قانون لاگو نہیں ہوگا ۔بہر حال چندر بابونائیڈو بھاجپا کو چوپٹ کرنے چلے تھے خود ہی زیر ہوگئے ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں