سچی صحافت جان خطرے میں ڈالنے کے برابر

پریس کو جمہوریت میں ہمیشہ چوتھے ستون کی تشبیح دی جاتی رہی ہے کیونکہ اس کی جمہوریت کی مضبوطی میں بے حد اہم ترین رول رہا ہے ۔یہی وجہ سے کہ ہیلتھ اور مضبوط جمہوریت کے لئے پریس کی آزادی کو بہت اہم مانا گیا ہے لیکن فہرست میں واقع رپوٹرس سینس ،فرنٹیر اور رپوٹرس وداوٹ باڈرس نام کی تنظیم نے 18اپریل کو جاری اپنی سالانہ رپورٹ میں بھارت کی آزادی کو لے کر جو حقائق پیش کیئے ہیں اس سے ہر کسی کو زبردست ناقابل برداشت جھٹکہ لگا ہے ان حقائق میں سامنے آیا ہے ۔بھارت پریس کی آزادی کے معاملے میں دوسرے پائدان سے اور نیچے کھسک گیا ہے جو تشویش کا باعث ہے کل 180ملکوں پر تیار اس رپورٹ کے مطابق بھارت اب 140ویں مقام پر پہنچ گیا ہے جو 2017میں 136مقام پر اور 2018میں 138ویں پائیدان پر تھا ۔پچھلے کچھ سالوں کے دوران صحافیوں کے لئے کام کرنے کا ماحول خراب ہوا ہے اور جمہوریت کا چوتھہ ستون کہے جانے والے اس صحافت کے ستون کے پہرے داروں پر حملوں میں تیزی آئی ہے یہ حملے دباﺅ اور دھمکی سے لے کر خطرناک سطح پر ہیں ۔صحافیوں کے خلاف مقدمے درج کرنا اب عام بات ہو گئی ہے ۔مثال کے طور پر کرناٹک ہے جہاں پولس نے سابق وزیر اعظم دیوگوڑا کے پوتے اور ریاست کے وزیر اعلیٰ کمار سوامی کے لڑکے نکھل سے متعلق ایک خبر شائع کرنے کو لے کر کنڑ اخبار کے مالک و مدیر کے خلاف آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے ۔کنڑ اخبار وشوانی کے مطابق چناﺅ میں ہار ہونے کے بعد مبینہ طور وسے نشے کی حالت میں نکھل نے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں ہنگامہ کیا اور اپنے دادا کے ساتھ بدتمیزی کی اس بارے میں اخبار کے مالک و مدیر وشیشور کا کہنا ہے ان کا یہ آرٹیکل ذرائع کے حوالے سے شائع کیا گیا تھا اور وہ اپنے اس کالم پر قائم ہیں بھولنا نہیں چاہیے کہ چناﺅ کے دوران ٹکٹ بٹوارے کو لے کر دیو گوڑا خاندان میں کتنی کھینچ تان ہوئی تھی اور خبر کے مطابق نکھل اس لئے ناراض تھے کیونکہ ان کے دادا نے کانگریس کے نیتاﺅ ں کی ویسی ہمایت نہیں حاصل کی جیسا کہ انہوںنے ہاسن سیٹ پر اپنے چچیرے بھائی پرچول کے حق میں حاصل کی تھی حقیقت میں کرناٹک جے ڈی ایس کانگریس اتحاد کو بھاجپا کے ہاتھوں بری طرح سے ہر ملی تھی وہیں جے ڈی ایس صرف ہاسن سیٹ ہی جیت سکی تھی اخبار کے مطابق کمار سوامی سرکار کا یہ رویہ اس لئے حیران کن نہیں ہے کیونکہ نتیجے کے کچھ دن پہلے وزیر اعلیٰ نے کہا تھا کہ مبینہ طور پر غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کو کنٹرول کرنے کے لیے ان کی سرکار قانون لانے پر غور کر رہی ہے وہ میڈیا پر حملہ کر سچائی سے ہی منھ پھیرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ بھی ایسے وقت جب ان کی حکومت کا وجو د پر سنگین خطرہ منڈرایا ہوا ہے ۔رپورٹر وداﺅٹ باڈرس نے ورلڈ پریس آزادی نام سے اپنی رپورٹ میں ہندوستان کی پریس کی آزادی کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بھی صاف کیا ہے کہ کس طرح دنیا بھر میں صحافیوں کے خلاف نفرت تشدد میں بدل گئی ہے جس سے دنیا بھر میں صحافیوں میں ڈر بڑھا ہے ۔بھارت کو لے کر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کٹر پسندی حب الوطنوں کو آن لائن مہموں کا پتر کار تیزی سے نشانہ بن رہے ہیں ساتھ ہی ایسے نام نہاد راشٹر وادی جسمانی عزیت پہنچانے کی دھمکی دیتے ہیں رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستانی صحافیوں کو کئی طرح کے خطروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔سال 2018میں بھارت میں اپنے کام کے چلتے چھ صحافیوں کو قتل کیا گیا کئی پر قاتلانہ حملے کئے گئے ان سے مار پیٹ اور دھمکی کے واقعات تو عام ہیں صحافیوں کو اپنے خلاف نفرت کمپین کا بھی سامنہ کرنا پڑا اوران کو سوشل میڈیا پر بھی جان سے مارنے کی دھمکی دنیا عام بات ہو گئی ہے ایسے میں بھارت میں پریس کی آزادی کی موجودہ حالت میں سے ایک صحافیوں کے خلاف تشدد ہے اور ان کے خلاف جرائم پیشہ یا کرپٹ سیاست دانوں کے بدلہ لینے کے واقعات بھی شامل ہیں ۔اور اس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ اگر کچھ بھی غلط یا غیر اخلاقی ہو رہا ہے تو جسے دبانے یا چھپانے کی کوشش کی جار ہی ہے تو کوئی صحافی اسے اجاگر کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال رہا ہے ۔کیونکہ ایسے میں اس صحافی کی زبان پر تالہ لگانے کے لئے سام،دام ،دنڈ ،بھید ہر طرح کے غیر اخلاقی طریقوں کو اپنایا جاتا ہے ایسے میں دیش میں پریس کی آزادی بر قرار رہے اس کے لئے پتر کارکی سیکورٹی سے لے کر سخت قانون بنانے ہوں گے تاکہ بغیر دباﺅ یا خوف کے اپنا فرض بخوبی نبھاتے رہیں ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟