پہلی بار بھارت او آئی سی کانفرنس میں شامل ہوا

اوآئی سی یعنی اسلامی ملکوں کی انجمنوں کی متحدہ عرب عمارات کی راجدھانی ابو ظہبی میں پہلی بار اجلاس میں مہمان خصوصی کے طور پر بھارت کو مدعو کیا جانا جتنے بڑے اعجاز کی بات ہے اتنا ہی یہ اجلاس اہم ترین رہا ۔کیونکہ ہندوستانی وزیر خارجہ کا اس سے خطاب انہوںنے اسلامی ملکوں کے سامنے دہشتگردی پھیلانے والوں کو کھلے الفاظ میں خبر دار کیا محترمہ سشما سوراج نے مسلم اکثریتی 57ملکوں کی تنظیم اوآئی سی کے اسٹیج سے دہشتگردی کو لے کر پاکستان کا نام لئے بغیر اس کو آڑے ہاتھوں لیا ۔سشما سوراج نے رگ وید کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھگوان ایک ہے اور مذاہب کامطلب ہے امن آج دنیا دہشتگردی کے مسئلے کا شکار ہے اور آتنکی تنظیموں پر ٹیرر فنڈنگ پر روک لگانی چاہیے ۔دہشتگردی کے خلاف لڑائی کسی مذہب کے خلاف ٹکراﺅ نہیں ہے جس طرح اسلام کا مطلب امن ہے اللہ کے 99ناموں میں سے کسی بھی نام کا مطلب تشدد نہیں ہے ۔اسی طرح مذہب امن کے لئے ہے بھارت میں ہر مذہب اور کلچر کا مکمل احترام ہے ۔پاکستان کے ساتھ تلخی کے رشتوں کے پس منظر میں ابو ظہبی میں سشما سوراج کی موجودگی بھارت کے لئے بڑی ڈپلومیٹک کامیابی اس لئے بھی ہے کیونکہ پاکستان کے اعتراض کے باوجود میزبان متحدہ عرب عمارات نے بھارت کو دی گئی دعوت منسوخ نہیں کی نتیجتا اس پاکستان کوہی اجلاس سے دور رہنا پڑا جو او آئی سی کے بانی ممبروں میں سے ایک ہے ۔بھارت اس کا ممبر نہیں ہے پھر بھی پاکستان کے سخت اعتراض کو در کنار کرتے ہوئے او آئی سی نے بھارت کو اس منچ پر آنے کی دعوت دی ۔حالانکہ بتا دیں کہ 1969میں بھی ہندوستانی نمائندہ وفد اوآئی سی اجلاس میں شرکت کے لئے گیا تھا ۔لیکن پاکستان کے اڑ جانے پر اس کی دعوت کو منسوخ کر دیا گیا تھا ۔اور بیچ راستے میں ہی وفد کو واپس لوٹنا پڑا تھا تب سے او آئی سی نے بھارت سے دوری بنائی ہوئی تھی مگر آج کے بدلتے عالمی پس منظر میں اگر او آئی سی نے بھارت کو اس اجلاس میں بلایا اور خطاب کا موقع دیا تو اس سے یہ اشارہ تو صاف ہے کہ اسلامی ملکوں کی انجمن میں بھی بھارت کا دبدبہ بڑھ رہا ہے ۔اور اس کی مقبولیت بھی ۔مستقبل میں سفارتی اور فوجی حالات میں بھارت نئے رول میں آسکتا ہے اور پاکستان کو اس کا مطلب سمجھنا چاہیے کہ اسلام کے نام پر چھیڑا گیا جہاد کو دنیا کے دیگر اسلامی ملکوں کو بھی نا پسند ہے پاکستان کے لئے یہ بڑا جھٹکا اس لئے بھی ہے جس او آئی سی کو وہ اپنا گھر کہتا ہے وہیں اسے نظر انداز کیا گیا اپنے قیام کے پانچ دہائی بعد ہی سہی او آئی سی کو اگر یہ احساس ہوا ہے کہ صرف پاکستان کے کہنے پر بھارت جیسے دیش کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تو اس سے قابل خیر مقدم اور کچھ نہیں ہو سکتا ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟