ہاپوڑ کی لڑکیوں نے آسکر جیتا

91انٹرنیشنل نامور آسکر ایوارڈ تقریب اس مرتبہ بھارتیوں کے چہروں پر مسکان اور خوشی لے کرآئی ہے ۔لاس اینجلس میں متعقدہ ایوارڈ فنشل میں ہاپوڑ کی لڑکیوں پر بنی دستاویزی فلم پیریڈ :اینڈ آف سیٹ آن کو شاٹ دستاویزی ضمرے کے تحت آسکر ایوارڈ سے نوازہ گیا ہے ۔26منٹ کی اس دستاویزی فلم میں اترپردیش کے شہر ہاپوڑ کے کاٹھی کھیڑا گاﺅں میں پیڈ مشین لگانے کے بعد آئی تبدیلی کی کہانی ہے ۔اس کے پیچھے جد و جہد کی کہانی ہے گاﺅں کے لوگ بہت ہی سادہ زندگی جینے والے ہیں ان حالات میں ایسے موضوع پر فلم بنانا آسان نہیں تھا کہنے کو تو یہ فلم محض26منٹ کی ہے لیکن اس کو بنانے کی جد و جہد 1997میں شروع ہوئی تھی ایکشن انڈیا نے ہاپوڑ ضلع کا کوڈینٹر شبانہ کو بنایا تھا ۔شروعاتی دور میں اس نے گھریلو تشدد روکنے کے لئے بعد میں اس پر قانون بنایا شبانہ کے گاﺅں میں گھر گھر جا کر عورتوں کو سمجھایا اور صفائی کے لئے بیدار کیا جب فلم بنانے کی بات آئی تو سبھی کرداروں کو تیار کرنا ایک بڑی چنوتی تھی وجہ بھی صاف تھی جس بات کو لے کر عورتیں ہی آپس میں بات کرنے سے کتراتی ہیں اس پر فلم بنانا آسان نہیں تھا لیکن شبانہ اعظمی نے گاﺅں کی لڑکیوں کو نکڑ ناٹک کے بعد آخر تیا کر لیا ۔سلم ڈوگ ملینیر کے دس سال بعد آسکر سے بھارت کے لئے کچھ اچھی خبر آئی 2009میں سلم ڈوگ ملینیر کے لئے اے آر رحمان اور سائیڈ انجینر ریسول پوکڑی کو آسکر ملا تھا ۔یہ دستاویزی فلم عورتوں کے منتھلی کورس سے جڑا ہے اور عورتوں کی لڑائی و پیڈ مین کے نام سے مشہور اروناچل موگاناتھم کے ذریعہ سستے پیڈ بنانے اور لوگوں تک پہچانے کی کوششوں کی بات کرتی ہے ۔یہ فلم خاص طور سے ہاپوڑ کی لڑکیوں کی جد جہد پر مرکوز ہے آسکر میں دستاویزی فلم کو دو ضمروں دستاویزی فیچر اور دستاویزی شاٹ سبجیکٹ میں بانٹا گیا ہے ۔ڈاکومینٹری فیچر میں انہیں شامل کیا جا تا ہے جن کی مدت چالیس منٹ سے زیادہ ہوتی ہے اور شارٹ عنوان فلم میں ان فلموں کو جگہ ملتی ہے جن کی معیاد سبھی چیزوں کو ملا کر چالیس منٹ یا اس سے کم ہوتی ہے ہم فلم بنانے والے تمام کرداروں اور تکنیکی اسٹاف کو اس شاندار کارنامے پر مبارکباد دیتے ہیں کہ انہوںنے ایسے موضوع پر فلم بنائی ہے جو صرف بھارت ہی نہیں بلکہ پورے غیر ترقی یافتیہ ممالک کے مسئلے کو دکھاتی ہے ،بدھائی۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟