گﺅکشی کے نام پر ہجومی بھیڑنے اپنا گھنونا چہرہ دکھایا

ایک بار پھرگﺅ کشی کے نام پر ہجومی بھیڑ نے اپنا گھنونا چہرہ دکھا دیا ۔بلند شہر چنگراوڑی گاﺅںمیں مبینہ طور پر گﺅ کشی کئے جانے کی افواہ سے غصہ میں بھیڑ کے تشدد میں ایک پولس انسپکٹر اور ایک نوجوان کی موت ہو گئی واردات سے پتہ چلتا ہے کہ کھیت میں مبینہ طور پر گﺅ کے اعضاءملنے کی شکایت پر تھانہ انچارج سبوت کمار سنگھ نے رپورٹ درج کر دیہاتیوں کو ایکشن لینے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن بھیڑ بے قابو ہو گئی اور اس پہلے تو ہائی وے پر جام لگایا اور پھر آگ زنی اور تشدد پر آمادہ بھیڑ نے کئی گاڑیاں جلا دیں تھانہ میں توڑ پھوڑ کی اس کے بدلے میں پولس نے بھی جوابی فائرنگ کی لکھنﺅ میں ایڈینشل ڈائرکٹر جنر ل نے بتایا کہ سیانہ کوتوالی علاقہ میں مہاب گاﺅں کے کھیتوں میں اتوار کی دیر رات نا معلوم لوگوں نے کچھ مویشی مار دئے تھے اس سے بھڑکے لوگ ان کے باقی بچے حصوں کو ٹرک پر لاد کر چنگراوتی چوکی پہنچے اور سڑک کے درمیان جام لگا دیا ۔کوتوالی کے انسپکٹر سبوت کمار نے فورس کے ساتھ قریب چا ر سو لوگوں کی بھیڑ کی بات سمجھنے کی پوری کوشش کی لیکن وہ نہیں مانے الزام تھا کہ پولس نے زبردستی جام کھلوانا چاہا تو بھیڑ نے پتھراﺅ شروع کر دیا پتھر بازی میں سبوت زخمی ہو گئے بعد میں ان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ،ان کے ساتھ گئے آٹھ پولس والوں کو بھی چوٹیں آئیں یہ دیکھ کر پولس نے لاٹھی چارج کیا ۔بتاتے ہیں کہ اس دوران بھیڑ سے گولیاں چلیں اور پولس کی جوابی فائرنگ میں سمت نا م کے لڑکے کو گولی لگی جس سے اس کی موت ہو گئی ۔بتایا جاتا ہے کہ انسپکٹر سبوت کو بلوائی زخمی حالت میں ان کی ہی جیپ میں کھیتوں میں لے گئے انہیں الٹا لٹا کر پیٹا اور بعد میں گولی مار دی گئی ۔جیپ کو بھی آگ لگا دی اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ عناصر ایسے ہیں جو گﺅ ودھ انسداد قانون کو ناتلانجلی دیتے ہوئے گﺅ حتیا سے باز نہیں آرہے ہیں لیکن ان کے خلاف ناراضگی ظاہر کرنے اور انہیں سزا کا ساجھیدار بنانے کے لئے پولس انتظامیہ پر ایسا سلسلہ چلا جو ہر گز نہیں کیا جا نا چاہئیے ۔قانون و انتظام کے ساتھ سماجی بھائی چارے کے لئے خطرہ بن جائے ۔بلند شہر کے سیانہ میں جو کچھ ہوا اس میں کئی سوال کھڑے کر دئے ہیں کیا سیاسی کھیل کا حصہ ہے یا پھر کلی طور پر انتظامی لاپرواہی کا معاملہ؟ایسے تمام سوالوں کے بیچ ایک جانباز پولس افسر تو مارا گیا اور اس کے خاندان میں ماتم چھا گیا اس تکلیف دہ حادثہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔سوال یہ ہےکہ قریب ڈیڑھ گھنٹے تک تھانے کے سامنے تشدد اور لگانے کا کھیل چلتا رہا اور بہت سی گاڑیاں جلائی جاتی رہیں پولس پر گولیاں چلتی رہیں اس سے سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ تشدد اچانک ہو گیا یا پہلے سے طے شدہ تھا ؟کون دے گا ان سوالوں کے جواب ؟حالات بگڑتے دیکھ لگاتار ضلع کنٹرول روم سے فورس مانگی جاتی رہی لیکن فورس موقع پر نہیں پہنچی جب معاملہ ٹھنڈا ہو گیا تھا تو حالات دوبارہ کیسے بگڑے ؟اترپردیش کی یوگی سرکار نے واردات کی جانچ کے لئے ایس آئی ٹی بنا دی ہے جس سے پورے معاملے کی اصلیت کا پتہ چل سکے گا ۔لیکن اس وقت ایسے عناصر پر سختی سے نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ساتھ ساتھ انسپکٹر سبوت کے اصل قاتلوں کی پہچان ہو اور انہیں گرفتار کر عدالت میں پیش کیا جائے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟