امریکہ کا پیچھا نہ چھوڑتا یہ گن کلچر!

امریکہ میں یہ جو گن کلچر ہے اس کی دیش بہت بڑی قیمت قیمت چکا رہا ہے۔آئے دن امریکہ میں فائرنگ کی خبریں آتی رہتی ہیں۔کچھ دن پہلے ہی امریکہ کے پٹس برگ شہر میں ہتھیار سے مسلہ ایک شخص نے یہودیوں کی عبادت گاہ میں گھس کر گولیاں برسائیں جس میں 11لوگوں کی موت ہوگئی۔اور چار پولس والے سمیت چھ افراد زخمی ہو گئے تھے۔امریکہ کی تاریخ میں یہودیوں پر یہ اب تک کا سب سے بڑا خطرناک حملہ ہے۔فائرنگ کرنے والے کی پہچان 46سالہ روبرٹ بووس کے طور پر ہوئی ہے۔جس نے پٹس برگ کے گرجا گھر ٹری آف لائف کواڈی گریشن سیناک پر پولس کی جوابی کاروائی میں زخمی ہونے کے بعد سرینڈر کر دیا۔بھیڑ پر ہوئی فائرنگ کوصدر ٹرمپ نے یہودی مخالف مہم بتایااور ایسے فائرنگ کرنے والوں کیلئے موت کی سزا کی مانگ کی ٹرمپ نے حکم دیا کہ وائٹ ہائوس ،پبلک مقامات فوجی چوکیوں ،بحریہ کے مراکز اور جہازوں پر لگے جھنڈے متوفی کے تیں غم کا اظہار کرنے کے لئے 31اکتوبر تک جھنڈے جھکے رہے۔امریکہ کا یہ گن کلچر سے دیش کو بھاری قربانی دینی پڑ رہی ہے۔مشکل یہ ہے کہ امریکہ میں ہتھیار بنانے کی لابی اتنی طاقتور ہے کہ وہ اس کسی طرح کے کنٹرول کو کرنے نہیں دیتے۔سابق صدر براک اوبامانے اس گن کلچر پر پوری طرح پابندی لگانے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکے حال ہی میں ٹائم میگزین نے گن گلچر کے سلسلہ میں امریکیوں کی رائے جاننے کے لئے تین شہروں میں 245لوگوں سے خیالات جانے ۔امریکہ میں بندوق رکھنے کی روایت بہت پرانی ہے۔آئین میں نظریہ اور اظہار رائے کی آزادی پہلے اور گن رکھنے کا حق دوسرے نمبر پر ہے۔زیادہ تر امریکیوں کے پاس ایک سے زیادہ بندوق ہیں۔اوسطا ہر روز چھ بچے غیر ارادتا گولی چلنے سے مرتے ہیں یا زخمی ہوتے ہیں۔2012سے 2016تک ہر برس 35ہزار امریکی فائرنگ سے مارے جاتے ہیں۔دیش میں اجتمائی قتل عام کی تعداد بڑھ رہی ہے۔سب سے بڑی جان لیوا فائرنگ 11جون2016کو اورلینڈو کے پاس پلس نائٹ کلب میں ہوئی تھی وہاں 49لوگ مارے گئے تھے۔اکتوبر2017کو لاس ویگس میوزک فسٹیول میں 58لوگوں کا قتل عام ہوا تھا۔اس گن گلچر کے جاری رہنے میں پیسے کا بہت بڑا رول ہے ۔فائر آرمس انڈسٹری 17ارب ڈالر کی ہے۔جب براک اوباما صدر بنے تھے تب افواہ پھیلی تھی کہ بندوق رکھنا غیر قانونی ہو جائے گا اس کے بعد بندوق اور ہتھیار وں کی فروخت جم کر ہوئی تھی۔ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد فروخت کم ہوئی ہے۔امریکہ میں شہریوں کے پاس ہتھیاروں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔سال 1995میں 17کروڑ ہتھیار تھے جو 2015میں بڑھ کر 26کروڑ 50لاکھ ہو گئے۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟