اڈوانی جی کے91ویںجنم دن پر بدھائی

جمعرات یعنی 8نومبرکو بھاجپا کے سب سے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی جی کا 91ویںجنم دوس تھا۔انہیں بدھائی دینے والے سب سے پہلے لوگوں میں ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی تھے ان کے علاوہ بھاجپا صدر امت شاہ ،راجناتھ سنگھ سمیت دیگر بھاجپا نیتائوں نے انہیں مبارکباد دی۔وزیر اعظم نے سر جھکا کر اڈوانی جی کا خیر مقدم کیا۔بی جے پی کو سفر سے چوٹی تک پہنچانے میں اڈوانی جی کا اہم رول رہا ہے۔لیکن آج کی تاریخ میں اڈوانی جی بھاجپا میں الگ تھلگ ہیں ۔اور سرگرم سیاست سے بھی بالکل الگ ہو گئے ہیں۔وزیر اعظم جو جمعرات کو سر جھکا کر خیر مقدم کرتے نظر آئے انہیں مودی نے کچھ مہینے پہلے اسٹیج پر کھڑے اڈوانی جی تک کو نہیں دیکھا ۔ان کا احترام کرنا تو دور وہ بغیر دعا سلام کئے بغیر ہی آگے بڑھ گئے تھے وہ ویڈو دیکھ کر بہت برا لگا تھا۔وزیر اعظم مودی کبھی کافی قریبی ہو ا کرتے تھے۔لیکن 2014میں وزیر اعظم عہدہ کے امیدوار کے انتخاب کے بعد سے دونوں کے رشتوں میں کڑواہٹ آگئی ایک زمانے میں بزرگ لیڈر لال کرشن اڈوانی کی پورے بھارت میں توتی بولتی تھی۔اور انہیں وزیر اعظم کا مظبوط دعویدار مانا جاتا تھا۔پی ایم کی کرسی تو دور پچھلے دنوں جب صدر کے عہدے کا چنائو ہوا تو ان کا نام اس عہدے کے لئے متوقع امیدواروں کی فہرست میں بھی نہیں رکھا گیا ۔یہ وہی اڈوانی ہیں جنہوں نے 1984میں دو سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی بھاجپاکو دلدل سے نکال کر پہلے سیاست کے مرکز میں پہنچایا اور پھر 1998میں پہلی بار اقتدار کا ذائقہ چکھوایا۔اس وقت جو بیج انہوں نے بوئے تھے۔قاعدہ سے ان کی فصل کاٹنے کا وقت اب تھا لیکن فصل کاٹنا تو دور لال کرشن اڈوانی ہندوستانی سیاست تو کیا بھاجپا کی سیاست میںبھی بے جواز سے ہو گئے۔بھاجپا کو قریب سے دیکھنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ آر ایس ایس کی حمایت پانے کے لئے آپ کا ہارڈ لائنر ہونا ضروری ہوتا ہے لیکن وہیں وزیر اعظم کے عہدہ کی دوڈ میں شامل ہوتا ہے تو وہ اپنی ساکھ کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کی آل انڈیا سطح پر مقبولیت بڑھ سکے۔اڈوانی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔پریشانی بی جے پی کے ساتھ ہمیشہ رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بھاجپا یا اس سے پہلے جن سنگھ یا آر ایس ایس ہندو راسٹر کی آیڈیالوجی کی بنیاد پر کھڑے ہیں۔ہٹ دھرمی کا اور کٹر پن ان کی آیڈیا لوجی کا حصہ ہے۔دقت یہ ہوتی ہے کہ جب آپ آئینی عہدہ کی دوڈ میں ہوتے ہیں تو آپکو  اس سے باہر نکلنا ہوتا ہے۔بی بی سی کے مطابق اڈوانی کے مخالف رہے آر ایس ایس پر کتاب لکھنے والے اے جی نورانی کہتے ہیں کہ 1984کے چنائو میں جب بی جے پی صرف 2سیٹیں ملی تھیں تو وہ (اڈوانی)بہت بوکھلائے تھے۔انہوں نے پرانے ووٹ حاصل کرنے کا  صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ہندوتو کو دوبارہ جگایا جائے 1984میں بی جے پی پالمپور پرستائو لائی اور پاس ہوا جس میں اڈوانی نے کھل کر بتایا کہ میں امید کرتا ہوں کہ ہماری یہ کوشش ووٹوں میں بدلے ان کے مطابق 1995میں محسوس کیا کہ دیش انہیں وزیر اعظم نہیں بنائے گا اس لئے انہوں نے واجپائی کے لئے گدی چھوڑ دی۔جنا کے بارے میں جو انہوں نے بات کہی تھی کہ انہون نے مزار پر جا کر جو کچھ کیا تھ وہ پاکستانیون کو خوش کرنے کے لئے نہیں تھا۔وہ بھارت میں اپنی ایک اصلاح پسند ساخ بنانے کی کوشش تھی۔وہ کہتے ہیں کہ لیکن ایسا کر کے وہ خود اپنے جال میں پھنس گئے  انہوں نے گجرات دنگوں کے بعد جن مودی کو بچایا انہوں نے ہی انہیں باہر کا راستہ دکھا دیا ۔ان کا یہ حشر ہوا کہ( نہ خدا ملا نہ وصال صنم )نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔لیکن رام بہادر رائے کا خیال ہے کہ گجرات دنگوں کے بعد اڈوانی نہیں بلکہ دوسرے لوگوںنے مودی کو بچایا تھا ۔رام بہادر رائے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ واجپائی چاہتے تھے کہ نریند مودی استیفہ دیں اور انہوں نے ایک بیان میں مودی کی موجودگی میں ان کو راج دھرم نبھانے کی صلاح بھی دی تھی ۔لیکن واجپائی کو ٹھنڈا کرنے اور اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرنے کے لئے جن دو افراد نے اہم رول نبھایا تھا وہ نام تھے ارن جیٹلی اور پرمود مہاجن ۔واجپائی جب دہلی سے گو ا پہنچے تو ان کے جہاز میں یہ دو لوگ ہی تھے۔اڈوانی تو تھے ہی نہیں انہوںنے اپنے آپ کو سیاست سے بالکل الگ کر لیا تھا۔یہ انتہائی تکلیف دہ ہے کہ پارلیمنٹ میں ہر پرگرام میں نظر تو آتے ہیں لیکن کسی مباحثہ میں حصہ کیوں نہیں لیتے ایک بار بھی کسی قومی احمیت کے اشو پر نہیں بولے ۔خیر ہم اڈوانی جی کے جنم دن پر انہیں بدھائی دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کا بنواس ختم ہو۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟