موہن بھاگوت کے بیان پرسیاسی واویلا

آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت کا فوج پر کئے گئے تبصرے سے سیاسی واویلا کھڑا ہوگیا ہے۔ بھاگوت نے مظفر پور میں کہا تھا کہ ہماری ملٹری تنظیم نہیں ہے۔ ملٹری جیسا ڈسپلن ہمارا ہے۔اگر دیش کو ضرورت پڑے اور دیش کا آئین ۔ قانون کہے تو فوج تیار کرنے کو چھ سات مہینے لگ جائیں گے۔ آر ایس ایس رضاکاروں کو لیں گے اور تین دن میں وہ تیار ہوجائیں گے یہ ہماری صلاحیت ہے لیکن ہم ملٹری سنگٹھن بھی نہیں ہیں، ہم تو ایک کنبہ جاتی تنظیم ہیں۔ کانگریس صدر راہل گاندھی نے بھاگوت کے بیان کو فوج اور ترنگے کی توہین قراردیتے ہوئے اسے شرمناک قرار دیا ۔وہیں کانگریس نے بھاگوت کی جانب سے دیش اور فوج سے معافی کی مانگ کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت میں پرائیویٹ ملیشیا کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ وہیں کانگریس نیتا آنند شرما نے وزیر اعظم نریندر مودی سے پوزیشن صاف کرنے کوکہا ہے۔ بھاگوت کا بیان چونکانے والا ہے۔ ایسے بیان سے ہماری فوج کا حوصلہ کمزور ہوتا ہے۔ بھارت کی فوج دنیا کی سب سے بڑی افواج میں سے ہے جس نے آزادی کے بعد تاریخی جنگیں لڑی ہیں۔ اس میں پاک فوج کا سرنڈر اور بنگلہ دیش کی آزادی شامل ہے۔ فوج نے ہماری سرحدوں کو محفوظ رکھا ہے اور ایسے وقت میں جب ہم بڑی چنوتی اور فوجی اڈوں پر حملوں کا سامنا کررہے ہیں تو بھاگوت نے تو ہماری فوج کی صلاحیت اور بہادری پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ بھاگوت کے بیان پر تنازع ہوتا دیکھ سنگھ کی جانب سے صفائی پیش کی گئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ بھاگوت نے فوج اور آر ایس ایس رضاکاروں کے درمیان کوئی موازنہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ رضاکار اور عام لوگوں کے درمیان کا موازنہ تھا۔ سنگھ کے آل انڈیا کمپین چیف منموہن وید نے کہا سرسنگھ چالک کے بیان کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا ۔ وید نے کہا کہ یہ فوج کے ساتھ موازنہ نہیں تھا بلکہ عام سماج اور رضاکاروں کے درمیان تھا۔ ادھر بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے بھاگوت کا اشاروں اشاروں میں بچاؤ کیا۔ انہوں نے کہا اگر کوئی تنظیم یہ کہتی ہے کہ وہ دیش کی سلامتی کرنے کو بے چین ہے تو کیا یہ تنازعہ کا موضوع ہے؟ مرکزی وزیر مملکت داخلہ کرن ریججو نے ٹوئٹ کر کہا کہ ہماری فوج کی شان ہے ایمرجنسی کی دور میں ہر ہندوستانی کو سیکورٹی فورس کے ساتھ کھڑے ہونے کے لئے خود آگے آنا چاہئے۔ بھاگوت نے نہ صرف یہ کہا کہ ایک شخص کو فوجی کے طور پر تیار ہونے میں چھ یا سات مہینے لگتے ہیں اگر آئین اجازت دیتا تو سنگھ کے کاڈر میں تعاون دینے کی صلاحیت ہے۔ سنگھ چیف کے بیان پر یہ پہلا تنازعہ نہیں ہے وہ پہلے بھی ایسے متنازع بیان دیتے رہے ہیں۔ ایسے وقت جب جموں و کشمیر میں جنگ کے حالات بنے ہوئے ہیں موہن بھاگوت کو ایسے بیانوں سے بچنا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟