ایودھیا تنازعہ صرف زمین کا جھگڑا ہے

عدالت سے تاریخ پر تاریخ صرف عام لوگوں کو ہی نہیں ملتی کبھی کبھی اس کے چکر میں بھگوان بھی پھنس جاتے ہیں۔ اب سپریم کورٹ رام جنم بھومی تنازعہ پر 14 مارچ کو سماعت کرے گی۔ اس درمیان کورٹ نے پھر صاف کیا کہ وہ اس معاملہ میں جذباتی دلیلیں نہیں سنے گا بلکہ صرف زمین تنازعہ کے نظریئے سے سنے گا۔ ایودھیا تنازعہ کی سماعت میں سپریم کورٹ کا یہ کہنا کہ وہ اسے صرف زمین کے جھگڑے کی شکل میں دیکھ رہی ہے ،قطعی طور پر یہ غیر معمولی نہیں ہے۔عدالت جذبات کی بنیاد پر نہ سماعت کرسکتی ہے اور نہ ہی کوئی فیصلہ دے سکتی ہے۔ اس کا کردار ٹھوس ثبوت اور حقائق کے مطابق فیصلہ کرنے کا ہے۔ عدالت کا یہ تبصرہ آئین کی کتاب سے نکل کر آیا ہے۔ ایودھیا تنازعہ دراصل ایک زمین کا جھگڑا ہے۔ سماعت جذبات کی نہیں الہ آباد ہائی کورٹ کے 2010 کے فیصلے کے خلاف کی گئی اپیل پر ہورہی ہے۔ کروڑوں ہندوؤں کے جذبات کا سوال اٹھا کر کئی اور فریق شامل ہونا چاہتے تھے۔ جتنی دلیلوں کو چیف جسٹس دیپک مشرا کی تین ممبر بنچ نے ان سنا کردیا ۔بیشک ایودھیا تنازعہ دیش کے کروڑوں لوگوں کے لئے آستھا اور جذبات کا اشو ہے لیکن جب یہ عدالت میں آ ہی گیا ہے تو اس کا کریکٹر محدود ہوگیا ہے۔ عدالت کے سامنے تو یہی اشو ہے کہ متنازعہ جگہ پر کس کی ملکیت بنتی ہے؟ ایودھیا ہندوستانی جمہوریت نظام کا سب سے پیچیدہ تنازعہ اور اس میں عدالتیں دلیلوں، اپیلوں اورثبوتوں کے ساتھ سیاسی جذبات کی وابستگی کو خارج کرنا حالانکہ مشکل ضرور ہے اس لئے چیف جسٹس کو یہ بھی کہنا پڑا کہ وہ معاملہ کی نزاکت کو سمجھتے ہیں۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے بھی اسی بنیاد پر تنازعہ کا فیصلہ کیاتھا حالانکہ اس کا یہ مطلب قطعی نہیں مانا جانا چاہئے کہ دیوانی معاملہ ہو جانے کے سبب جو آثار قدیمہ یا قدیم گرنتھوں کے ثبوت ہیں ان کا نوٹس عدالت نہیں لے گی۔ عدالت نے خود ہائی کورٹ کو سبھی فریقین کو ہندوستانی آثار قدیمہ کے ذریعے کی گئی کھدائی کے ویڈیو دستیاب کرانے کا بھی حکم دیا ہے۔ اے ایس آئی کی جانب سے 1970،1992 اور 2003 میں کھدائی کی گئی تھی۔ دیش چاہتا ہے کہ سپریم کورٹ معاملہ کی تیزی سے سماعت کرکے فیصلہ دے لیکن اس سے متعلقہ دستاویزات اتنے زیادہ ہیں کہ ان کے ترجمے میں ہیں وقت لگ رہا ہے۔ کل 524 دستاویزوں میں سے 504 کا ترجمہ کورٹ میں داخل ہوچکا ہے۔ 87 گواہیوں کے ترجمے اور اے ایس آئی کی رپورٹ بھی داخل ہوچکی ہے۔ ویسے تو اس تنازعہ کا حل عدالت کے باہر دونوں فریقوں کی رضامندی سے ہوجاتا تو بہتر ہوتا لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ کئی بار کوشش ہوئی لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جاسکا۔ سیاسی پارٹیوں کی اہم تشویش تنازعہ کے حل کے بجائے اپنے ووٹ بینک کو بڑھانے اور محفوظ رکھنے کی رہی ہے۔ اس معاملہ میں سپریم کورٹ پھونک پھونک کر قدم رکھا رہا ہے۔ دسمبر 1992 میں بھی الزامات لگے تھے کہ اگر عدالت وقت سے فیصلہ دے دیتے تو شاید ویسا افسوسناک واقعہ نہ ہوتا۔ صحیح ہے کہ عدالت میں لمبے وقت سے رام جنم بھومی کا جھگڑا لٹکا ہواتھا لیکن اگر سماعت عدالت اپنا فیصلہ اکثریتی فرقے کے خلاف سنا دیتی تو کیا اسے ماننے کو تیار ہوجاتا؟ یا پھر اقلیتی فریق کے خلاف فیصلہ آتا تو کیا وہ اسے مانتے؟ یہی سوال آج بھی ہے جس کا دباؤ سپریم کورٹ پر پڑ رہا ہوگا۔ خیر! اب سبھی فریقوں کو یہ مان کر چلنا ہوگا کہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے گی اسے قبول کر تنازعہ کا مستقل خاتمہ کردیا جائے گا۔ سیاسی پارٹیوں کو بھی ابھی سے من بنانا ہوگا تاکہ سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آئے اسے عمل میں لانے کے لئے کام کرسکیں۔ یہی ایک واحد راستہ ہے اور اسی میں دیش کی بھلی بھی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟