کیا مودی لوک سبھا چناؤ وقت سے پہلے کروائیں گے

دیش کی عوام نے 2014 کے چناوی ثمر میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کو 60 مہینے کیلئے اقتدار سونپا تھا لیکن اب قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ شاید مئی 2019 سے پہلے دسمبر 2018 میں یعنی پانچ مہینے پہلے ہی پی ایم مودی جنتا کی عدالت میں دوبارہ مینڈیٹ لینے کیلئے عوام کے پاس جائیں۔ مانا جارہا ہے بی جے پی راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے اسمبلی چناؤ کے ساتھ ساتھ لوک سبھا چناؤکا بھی داؤں کھیل سکتی ہے۔پی ایم کے پلان سے چوکس ہوئی کانگریس نے بھی اپنی حکمت عملی صاف کردی ہے۔ کانگریس پارلیمانی پارٹی کی چیئرمین سونیا گاندھی نے 2019 کے لئے اپوزیشن اتحاد کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس یکساں آئیڈیالوجی والی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کرکام کرے گی تاکہ اگلے چناؤ میں بھاجپا کو ہرایا جاسکے۔ پچھلے لوک سبھا چناؤ میں کانگریس کی ہار کو غیر معمولی بتاتے ہوئے سونیا گاندھی نے پارٹی ورکروں سے کہا کہ عام چناؤ تقریباً ایک سال بعد ہیں لیکن ہمیں تیار رہنا ہوگا کیونکہ بھاجپا پہلے بھی چناؤ کراسکتی ہے۔ 2014 عام چناؤ کے دوران نریندر مودی کی مہم میں مدد کرنے والے ٹکنالوجی صنعت کار راجیش جین نے بھی وقت سے پہلے چناؤ کی افواہ کو مضبوطی دی ہے۔ انہوں نے وقت سے پہلے چناؤ کے سبب بھی بتائے ہیں۔ ان کی دلیل ہے کہ 2014 کے چناؤ کے بعد سے بی جے پی کی سیٹیں لگاتار کم ہورہی ہیں اور مودی چناؤ کا جتنا انتظارکریں گے اتنی ہی اپنی چمک کھوتے جائیں گے۔ جو بھی ہو سرکار مخالف ہوا کا اپنی سائیکلنگ اور دلیل ہوتی ہے۔ بے روزگاری ،دیہی معیشت کی وجہ سے پیدا ہونے والی دقتیں بھی بڑھتی جائیں گی۔ وقت سے پہلے چناؤ کے حق میں سب سے زیادہ مضبوط دلیل اب بھی چونکانے والی ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ مودی کو چونکانا پسند ہے۔ مودی سرکار نے اپنے بجٹ سے کسانوں کو رجھانے کے بھی کوشش کی ہے۔ اگر چناؤ وقت سے پہلے ہوئے تو اپوزیشن کو متحدہ ہونے کا وقت نہیں مل پائے گا اور سرکار مخالف مہم کے لئے ان کے پاس کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں ہوگی۔ یہ نظریہ بھلے ہی دل بہلانے والے لوگے ہوں لیکن سچائی یہ بھی ہے کہ اس وقت مودی سرکار دیہی معیشت کو لیکر مشکل میں ہے۔ خاص کر کسانوں کی دقتوں کی وجہ سے لمبے وقت سے معیشت میں ہلچل نہیں ہے اور پرائیویٹ سرمایہ بھی نہیں بڑھ پارہا ہے۔ مودی سرکار کے لئے چیزیں اور خراب ہوتی جائیں گی۔ دیہی گجرات اور راجستھان میسیج دیکھا گیا ہے حالات پہلے سے بدتر ہوگئے ہیں۔ سرکار کی کوشش انہیں بہتر کرنے کے لئے ہوگی حالانکہ وقت سے پہلے چناؤ کروانا ایک بڑا خطرہ بھی ہے۔ اٹل بہاری واجپئی اکتوبر 1999 میں تیسری بار وزیراعظم بنے تھے اگلے چناؤ اکتوبر 2004 میں ہونے تھے لیکن مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں چناوی جیت سے گد گد بھاجپا نے ستمبر ۔ اکتوبر 2004 کے بجائے دسمبر 2003 میں ہی چناؤ کروا دئے، بی جے پی چناؤ ہار گئی۔ نریندر مودی اگر اٹل بہائی واجپئی کی غلطی کو دوہراتے ہیں تو یہ چونکانے والی بات ہی ہوگی۔ اقتدار کا ہردن نیتا کے پاس ووٹروں کو لبھانے کا ایک اور موقعہ ہوتا ہے۔ وقت سے پہلے چناؤ اس موقعہ کو گنوا دیتے ہیں۔ وقت سے پہلے چناؤ کروانا ایک جوا ہے جو ادھر بھی بیٹھ سکتا ہے ادھر بھی ۔ آنے والے دنوں میں پوزیشن مزیدصاف ہوجائے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟