دیش کو نابینا کرکٹروں پر فخر ہے

ایک طرف جہاں انڈین پریمیرلیگ (آئی پی ایل) میں کرکٹروں پر پیسہ کی برسات ہورہی ہے وہیں دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ورلڈ کپ جیتنے والی ہندوستانی نابینا کرکٹ ٹیم کا کھلاڑی کوئی کھیتی مزدور ہے تو کوئی گھروں میں دودھ سپلائی کرتا ہے۔ کوئی آرکیسٹا میں جاکر گزر بسر کرتا ہے۔ دیش کو دنیا میں عزت دلانے والے یہ کھلاڑی تنگدستی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ دوسری بار ونڈے ورلڈ کپ جیتنے والی ہندوستانی ٹیم کے17 افراد میں سے 12 کے پاس کوئی مستقبل روزگار نہیں ہے۔ اس سب کے باوجود ان کی ہمت اور جذبہ میں کوئی کمی نہیں ہے۔ 2014 کی طرح اپنا جلوہ برقرار رکھ کر نابینا ٹیم نے ورلڈ کپ کرکٹ کپ پر قبضہ جما لیا۔ انہوں نے فائنل میں اپنی کٹر حریف ٹیم پاکستان کو دو وکٹ سے ہرا دیا۔ اس ورلڈ کپ کا آغاز 1998 میں بھارت میں ہی ہوا تھا اور اس کے فائنل میں پاکستان کو ہرا کر ساؤتھ افریقہ کے چیمپئن بننے کو چھوڑدیں تو باقی چاروں ورلڈ کپ کے فائنل بھارت اور پاکستان کے درمیان ہی کھیلے گئے۔ ان میں سے آخری دو 2014 اور 2018 کے ورلڈ کپ پر بھارت نے قبضہ جمایا ہے۔ بھارت کو جیتنے دلانے میں سنیل رمیش نے 93 رن بنا کر اہم رول نبھایا۔ نابینا ٹیم کو چننے کا طریقہ بھی الگ ہے۔ اس میں کھیلنے والی ٹیموں میں کھلاڑی تو 11 ہی کھیلتے ہیں لیکن ٹیم میں 3 کیٹگری کے کھلاڑی شامل کئے جاتے ہیں۔ ٹیم میں بی۔1 کے 4، بی۔2 کے 3 اور بی اور وی کے 4 کھلاڑیوں کا کھلانا ضروری ہے۔ بی۔1 کا مطلب مکمل نابینہ۔ بی۔2 کا مطلب جزوی نابینہ اور بی۔3 کا مطلب تھوڑا بہت دیکھنے والا کھلاڑی۔ بی۔1 کھلاڑی کو ایک رنر دیا جاتا ہے اور وہ جتنے رن بناتا ہے اس کے دگنے رن اس کے کھاتے میں جوڑے جاتے ہیں۔ بی 2- کھلاڑی بھی چاہے تو وہ رنر لے سکتے ہیں۔ میچ میں فیلڈنگ کرتے وقت 4 بی۔1 کھلاڑیوں کا رہنا ضروری ہے۔ سبھی زمرے کے کھلاڑی ہاتھوں میں الگ الگ رنگ کے بینڈ باندھتے ہیں۔ کرکٹ کے قاعدے ہی نابینا کرکٹ میں بھی چلتے ہیں لیکن ان قواعد میں نابینا کرکٹروں کے لئے آسان بنانے کے لئے تھوڑی اصلاح کی گئی ہے۔ اس کی گیند کرکٹ میں استعمال ہونے والی گیند سے تھوڑی بڑی ہوتی ہے۔ گیند کے اندر بجنے والی بال بیرنگ ہوتی ہے۔ اس آواز سے ہی بلے باز گیند کو پہچاناتا ہے۔ فیلڈر کی بھی یہ پوزیشن ہوتی ہے۔ اس کے وکٹ تھوڑے بڑے ہوتے ہیں۔ وہ میٹل پائپ کے ہوتے ہیں ان کا رنگ چمکیلا نارنگی یا پیلا ہوتا ہے۔ اس میں گیند بازی انڈر آرچ کی جاتی ہے اور گیند کا آدھی پچ سے پہلے ٹپکا کھانا ضروری ہوتا ہے۔ اس کا مقصد ہے کہ گیند بلے باز کے پاس پہنچتے وقت نیچی ہورہی ہے۔ گیند باز پہلے ریڈی کہتا ہے اور بلے باز کے ہاں کہنے پر ہی پلے کہہ کر گیند پھینکتا ہے۔ ان تینوں باتوں میں تال میل نہ ہونے پر گیند نوبال ہوسکتی ہے۔ ہمیں اس ٹیم پر ناز ہے۔ اس بات کا بھی دکھ ہے کہ نہ تو سرکار کی طرف سے اور نہ ہی بی سی سی آئی سے ان کھلاڑیوں کو وہ سہولیات ملتی ہیں جو ان کو ملنے چاہئیں۔ کپتان اجے ریڈی کا کہنا ہے جہاں کرکٹروں کو ایک جیت پر سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے وہاں یہ نوکری اور عزت کو ترس رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کھلاڑی اپنا پورا فوکس کھیل پر نہیں دے پارہے۔ بی سی سی آئی یا کھیل وزارت سے مانیتا ملنے سے ہی مسائل بہت حدتک سلجھ سکتے ہیں لیکن وہ بھی نہیں ملے ہیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟