آسیان ممالک میں راجہ اور ہیرو ہیں بھگوان رام

کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایشیا کے کئی ملکوں میں بھگوان رام اور راون موجود ہیں۔ بیشک ان کے نام دیش کے مطابق بدل جاتے ہیں کہیں رام ، راما تو کہیں فرا بن جاتے ہیں۔ویسے ہی راون فلپین میں بدل کر لاون ہوجاتا ہے، کہانی وہی رہتی ہے۔ رام نائک اور راون کھلنائک ایشیا میں الگ الگ دیشوں میں بھلے ہی ایشور کے اوتار نہیں دکھائی پڑتے لیکن رامائن مہا کاویہ کی کہانی کا اختصار وہی ہے سچ پر برائی کی جیت کا پیغام دیتے اس مہاکاویہ کو زبان، کلچر، پس منظرسے دیکھنے کا مقصد بھی اسی طرح کا احساس ہے۔ وہ اتفاق سے گزری20سے24 جنوری کوآسیان ملکوں کے چارروزہ رامائن مہوتسو میں رہا۔ اس کا انعقاد دہلی میں ہوا تھا۔ یہاں مشترکہ کلچر کی علامت بن چکے مہا کاویہ رامائن کو آسیان ملکوں نے ایک اسٹیج سے اپنے اپنے انداز میں کہا الگ الگ شکلوں ، زبانوں اور نرتیہ کی شیلیوں میں منچ پر آئے یہ کردار بار بار کہہ رہے تھے کہ رامائن برسوں پہلے دور دور تک فروغ پا چکی ہے۔ رامائن کے کردار صرف بھارت ہی نہیں ایشیا والوں کے دل میں بستے ہیں۔ رامائن مہوتسو میں آئے فلپین کے کیتھولک دھرم سے وابستہ پادری اسٹیون فرنانڈیز کہتے ہیں کہ اسکول ۔کالج میں ہمیں رامائن کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے۔ فلپین میں حالانکہ اسلام اور عیسائی دو مذہب کے لوگ سب سے زیادہ ہیں اور اپنی مذہبی روایات سے الگ ہم رام یا سیتا کی پوجا نہیں کرتے لیکن رام ہماری کہانی کا ہیرو ہے۔ 40 سال سے تھیٹر میں رامائن کا منچن کررہا ہوں۔ پہلی بار بھارت آکر رام کے کردار اور ان کے دھارمک عقیدت کی مضبوط جڑوں کے بارے میں پتہ چل رہا ہے۔ صرف اسٹیون ہی نہیں آسیان کے فنکاروں کا پسندیدہ کردار سیتا ہے اس کے بعد دوسرے مقام پر آتے ہیں انج نپتر ہنومان۔ ہنومان کو دکھانے کے لئے کمبوڈیا کے آرٹسٹوں نے ہنومان چالیسا کا بھی منچن کیا تھا۔ عیسائی ملکوں خاص کر ساؤتھ جزیروں میں مسلمانوں کو رامائن کی سرپرستی کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ میانمار رام کی کہانی کے تین روپ دکھاتا ہے۔تھیوڑ بودھ دھرم کے بارے میں رائج کہانیوں کا ذکر ہے جہاں رام کو مستقبل میں بودھت رام مانا جاتا ہے۔ 300 برس پہلے ہی ایشیا میں پہنچ چکی رامائن نویں صدی انڈونیشیا کے جاوا جزیرے میں پربانند نام کا شیو مندر ہے۔ تھائی لینڈ میں آج بھی راجہ کو رام کی پدوی دی جاتی ہے۔ تھائی لینڈ میں جو بھی راجہ بنتا ہے وہ رام کی پدوی حاصل کرتا ہے۔ راجہ اور ہیرو ہیں آسیان دیشوں کے رام۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟