چین تو تب ملے گا جب داؤد ابراہیم و ساتھیوں کو سزا ملے گی

24 سال گزر گئے لیکن اس برے دن کو یاد کرکے آج بھی لوگ سہم اٹھتے ہیں جب 12 مارچ 1993ء کودیش کی اقتصادی راجدھانی ممبئی میں ایک بعد ایک 12 بم دھماکے الگ الگ جگہوں پر ہوئے تھے۔اس آتنکی حملے میں نہ صرف 257 لوگوں کی جان گئی تھی بلکہ713 لوگ زخمی بھی ہوئے تھے۔ جمعہ کو ممبئی کی ٹاڈا عدالت نے ابوسالم اور مصطفی ڈوسا سمیت 6 ملزمان کو قصوروار قراردیا۔ یہ ملزمان کا دوسرا بیچ ہے جس پر اس معاملے میں فیصلہ سنایا گیا ہے۔ اس سے پہلے 123 ملزمان کا اہم مقدمہ2006ء میں پورا ہوچکا ہے جس میں 100 ملزمان کو قصوروار قراردیا گیا تھا۔ اب اس معاملے میں کوئی ملزم حراست میں نہیں ہے اس لئے فوری طور پر مانا جاسکتا ہے یہ فیصلہ اس معاملے میں آخری فیصلہ ہے لیکن داؤد ابراہیم، انیس ابراہیم، محمد ڈوسا اور ٹائیگر میمن سمیت33 ملزمان آج بھی فرارہیں۔ 24 سال بعد ممبئی میں ہوئے بم دھماکوں میں آیا یہ فیصلہ ان لوگوں کو راس نہیں آرہا ہے جو اس میں اپنا سب کچھ گنوا بیٹھے ہیں ان کا خیال ہے کہ جب تک انڈر ورلڈ ڈان داؤد ابراہیم کو سزا نہیں مل جاتی ایسے فیصلے پر خوشی منانا غلط ہے۔ جب تک وہ قانون کے پھندے سے باہر ہے تب تک یہ نہیں مانا جاسکتا کہ یہ معاملہ اپنے دلیل آمیز انجام تک پہنچ چکا ہے۔ جیسا کہ اسپیشل ٹاڈا جج نے کہاہے کہ اس حملے کے قصوروار ایودھیا میں بابری مسجد کی مسماری کا بدلہ لینا چاہتے تھے مگر حیرانگی کی بات یہ ہے کہ خفیہ مشینری تین مہینے سے جاری سازش اور حملے کی تیاری کا پتہ تک نہیں لگا سکی۔ اس فیصلے سے پتہ چلتا ہے کہ جن 6 لوگوں کو قصوروار ٹھہرایا گیا ہے ہتھیار اور بارود کی کھیپ ممبئی تک لانے سے لیکر مختلف مقامات تک پہنچانے کی ان کی ذمہ داری کس طرح سے طے تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ حملہ کے دو تین دن بعد جب پولیس افسر شک کی بنیاد پر ٹائیگر میمن کے گھر پہنچے تو پتہ چلا کہ اس کا سارا خاندان پہلے ہی دیش چھوڑ چکا تھا۔ حالت یہ ہے کہ حملے کے اتنے برس بعد بھی اہم ملزم داؤد ابرہیم، انیس ابراہیم،ٹائیگر میمن اور محمد دوسا سمیت27 ملزم اب بھی فرار ہیں۔ ابو سالم کو پرتگال سے اور مصطفی دوسا کو متحدہ عرب امارات سے لایا گیاتھا۔ اسی طرح سے پھانسی پر لٹکائے جاچکے یعقوب میمن کو نیپال کے راستے بھارت لایاگیا تھا۔ ممبئی میں 1993 میں ہوئے سلسلہ وار بم دھماکے کسی آتنک وادی گروپ یا کسی آتنک وادی تنظیم کی کرتوت نہیں تھے۔ جس جگہ یہ دھماکے کئے گئے وہاں اتنی جلدی اتنی بڑی واردات کے لئے آتنکی نیٹ ورک تیار کرنا اس وقت پاکستان کے لئے بھی آسان نہیں تھا اس لئے اس نے اسمگلنگ ،زرفدیہ اور تمام طرح کے جرائم کرنے والے ممبئی کے انڈرورلڈ نیٹ ورک کا سہارا لیا۔ حالانکہ یہ پہلا موقعہ نہیں جب پاکستان نے ملزمان کا استعمال کیا ہو لیکن ان سلسلہ وار دھماکو ں اور اس کے بعد کی سرگرمی نے پاکستان کا چ پوری دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیا تھا۔ قریب8 سال بعد 2001 میں امریکہ میں ہوئے 9/11 حملے کا موازنہ 1993 کے ممبئی حملہ سے کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ اس حملے سے کچھ ویسے ہی پریشان ہوا جیسے تب بھارت ہوا تھا مگر دونوں دیشوں کی کارروائی میں فرق صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ امریکہ نے تب تک دم نہیں لیا جب تک اس نے حملے کے ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن کو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد جاکر مار نہیں گرایا۔ اس لئے ممبئی کے سیریل بم دھماکوں کا پورا انصاف تبھی ہوسکے گا جب ہم نہ صرف داؤد ابراہیم، ٹائیگر میمن اور ان کے فرار ساتھیوں کو ان کے قصور کی سزا نہیں دلوادیتے بلکہ آئی ایس آئی میں بیٹھے اس واردات کے اصلی سازشیوں کو سزا نہیں دے لیتے ۔ جب تک یہ نہیں ہوگا دہشت گردی کا خطرہ بھارت پر ہمیشہ منڈراتا رہے گا۔ سرکاروں کے دعوے ہوتے رہتے ہیں لیکن ان 24 سالوں میں اس نیٹ ورک کو بھی نیست و نابود نہیں کیا جاسکا جو آج بھی دبئی اور کراچی میں سرگرم ہے۔ ہمارے قومی کردار پر اس سے تکلیف دہ تبصرہ اور کیا ہوسکتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟