2019 جیتنے کیلئے مودی کا بہارو یوپی کا رامناتھ

لال کرشن اڈوانی ، ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی، سمترا مہاجن، سشما سوراج، دروپتی مرموئی، ای سری دھرن۔۔۔ اور ایسے کئی نام صدربننے کیلئے زیر غور تھے۔ شتروگھن سنہا نے تو کھل کر اڈوانی کے نام کو لیکر اگلے صدر کی امید بھی جتادی تھی۔ پھر قیاس آرائیاں اس بات پر لگائی جارہی تھیں کہ شاید گورو دکشنا کے نام پر مودی جی اڈوانی جی کو دیش کا پہلا شہری (راشٹرپتی ) بنادیں گے لیکن جو نام زیر غور رہے مودی اس پرکبھی مہر نہیں لگاتے۔ نواز شریف کو حلف برداری میں بلا کر،اسمرتی ایرانی کا محکمہ بدل کر، گجرات میں آنندی بین اور پھر روپانی کو وزیر اعلی بنا کر بھی وہ ایسے ہی چونکا چکے ہیں۔ ہریانہ، جھارکھنڈ، مہاراشٹر اور اترپردیش کے وزیر اعلی کے نام کا اعلان بھی ساری قیاس آرائیوں کو جھٹلاتے ہوئے ہی کیاتھا اور اب رامناتھ کووند ۔ لیکن کووند ہی کیوں؟ کیا معنی ہیں اس کے؟ مودی۔ شاہ کا نظریہ کیا ہے؟ بھارتیہ جنتا پارٹی نے بہارکے موجودہ گورنر رامناتھ کووند کو این ڈی اے کی جانب سے صدارتی امیدوار اعلان کر ساری قیاس آرائیوں پر نہ صرف پردہ ڈال دیا بلکہ اپوزیشن کو شایداپنی حکمت عملی پھرسے بنانے کے لئے مجبور کردیا ہے۔ سچ تو یہی ہے جس نام کا اب تک کوئی تذکرہ نہیں تھا اس نام کو سامنے لاکربھاجپا لیڈرشپ نے اپنے پرائیوں سبھی کو چاروں خانے چت کردیا ہے۔ پہلی بار وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ صدر بھی اترپردیش سے ہوگا۔ رامناتھ کووند 15 سال بعد دوسرے دلت صدر ہوں گے۔ ان کو صدر کے عہدے کیلئے امیدوار بنانے کے لئے کئی سیاسی معنی بھی ہیں۔ بھاجپا نے مشن 2019 کے لئے بڑا کارڈ کھیلا ہے۔ کووند جیتے تو یہ پہلا موقعہ ہوگا جب دونوں پی ایم اور صدر ایک ہی ریاست سے ہوں گے۔ کووند کے چنے جانے پر وہ دیش کے دوسرے اور نارتھ انڈیاسے آنے والے پہلے دلت صدر ہوں گے۔ کووندکو صدربنا کر بھاجپا اترپردیش اور بہار جیسے سیاسی اور سماجی تجزیوں والی ریاستوں میں دلتوں میں اپنی پکڑ مضبوط کرنے کی کوشش کرے گی۔ بھاجپا کا کبھی کوئی صدر نہیں رہا۔ کلام کو اٹل جی نے راشٹرپتی بنایا تھا لیکن ان کا نام ملائم سنگھ یادو نے آگے بڑھایا تھا۔ بھاجپا نے صرف حمایت د ی تھی، پھر کلام غیر سیاسی شخصیت تھے۔ اب پہلی بار بھاجپا کو یہ موقعہ ملا ہے وہ اسے گنوانا نہیں چاہتی ۔ کووند آر ایس ایس اور بھاجپا سے وابستہ ہیں۔ باوجود ان کی ساکھ کٹرپسندی کی نہیں ہے۔ یہی بات ان کے حق میں گئی ہے۔ جس طرح سے دلتوں کے اشو پر اپوزیشن ایک گروپ میں بن رہی ہے مودی نے اس کا توڑ نکال لیا ہے۔ اب بیک فٹ پر اپوزیشن آگئی ہے اور اس میں بھی کسی دلت کو اپنا امیدوار بنانے پر غور و خوض رہا ہے لیکن یہ دیش کی بدقسمتی ہی کہی جائے گی کہ اب دیش کے اعلی ترین عہدے پر ذات کی بنیاد پر فیصلے ہوں گے۔ صدر دیش کا پہلا شہری ہوتا ہے اور اس کا بین الاقوامی ویژن اور ساکھ ، پہچان ضروری ہے۔ پتہ نہیں شری کووند ان میعارات پر کتنے کھرے اترتے ہیں۔ رامناتھ کووند کے نام کے اعلان کے ساتھ اپوزیشن ضرب تقسیم کا حساب بھلے ہی نئے سرے سے شروع کرے لیکن اس کی تلخ سچائی تو یہ ہے کہ اس غیرمتوقعہ چہرے کو سامنے لاکر بھاجپا نے اپوزیشن کے تجزیئے کو بگاڑ دیا ہے۔ بھاجپا کے ووٹ اور حمایت کے تجزیئے کے موجودہ حساب میں بڑی ردوبدل نہ ہوئی تو طے ہے کہ اس کے بعد اپوزیشن کی لڑائی شاید محض خانہ پوری تک رہ جائے گی۔ کووند دلتوں میں چھوٹے فرقے سے آتے ہیں جو یوپی میں جاٹو اور پاسی کے بعد سب سے بڑا دلت فرقہ ہے۔ گزشتہ لوک سبھا اور اسمبلی چناؤ میں بھاجپا نے اترپردیش میں مایاوتی کے دلت ووٹ میں سیند لگا کر بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور اب اس میں اضافہ کرنے کی کوشش کرے گی۔ بھاجپا کی حکمت عملی میں دلت صدر کا پلان پہلے ہی سے تھا اس لئے مدھیہ پردیش سے آنے والے تھاورچند گہلوت کے نام پر غور چل رہا تھا۔ سیاسی سندیش کے لئے مدھیہ پردیش سے زیادہ بہتر اترپردیش اور بہار ہوتا ہے اس لئے بھی کووند کا پلڑا بھاری پڑا۔ ویسے بھی بھاجپا میں بولنے والے سے زیادہ سننے والے کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے یہ پہلو بھی رامناتھ کووند کے حق میں رہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟