دہلی میں بڑھتی آلودگی: گاڑیوں کی تعداد 1 کروڑ سے پار

دہلی میں ہوائی آلودگی کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔ ہر سطح پر لاپرواہی برتی جارہی ہے۔ اب جبکہ پانی سر سے اوپر جاچکا ہے تو ہر سطح پر ہائے توبہ والی پوزیشن بنی ہوئی ہے۔ راجدھانی کے مختلف علاقوں میں گاڑیوں سے نکلنے والے آلودہ دھوئیں کی جانچ کے لئے بنائے گئے سینٹرز میں سے 178 سینٹر ٹھیک کام نہیں کررہے۔ پیر کو دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل نے راجدھانی کی آب و ہوا کو آلودگی سے نجات دلانے کے لئے ٹرانسپورٹ کے ذریعے 178 سینٹروں کو نوٹس جاری کرنا اور 14 کا لائسنس معطل کرنا اور 5 کی منظوری منسوخ کرنا لائق تحسین قدم ہے۔ جب تک سخت رویہ نہیں اپنایا جائے گا بہتری مشکل ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ آلودگی جانچ مرکز دھاندلی کا اڈہ بن چکے ہیں۔ ڈھنگ سے جانچ کئے بغیر سرٹیفکیٹ جاری کردئے جاتے ہیں۔ جانچ مرکزوں کی لاپرواہی کا ہی نتیجہ ہے کہ آلودگی جانچ سرٹیفکیٹ ہونے کے باوجود دہلی میں جہاں جہاں گاڑیاں دھواں چھوڑتی دکھائی دیتی ہیں ۔ چونکانے والی حقیقت یہ بھی ہے کہ تمام طرح سے آلودگی روکنے کی کوششوں پر نئی گاڑیوں کے سڑکوں پر یومیہ بڑھنے والی تعداد نے سب کوششیں بیکار کردی ہیں۔ تمام دعوؤں اور سرکار کی کوششوں کے باوجود راجدھانی میں پرائیویٹ گاڑیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اب یہ تعداد ایک کروڑ کے پار پہنچ گئی ہے یعنی راجدھانی میں اکیلے ایک کروڑ سے زیادہ نجی گاڑیاں ہوگئی ہیں جس کے چلے آلودگی تو ہے ہی لیکن سڑکوں پر زبردست جام بھی لگ رہے ہیں۔ ٹرانسپورٹ محکمے کے اعدادو شمار کو مانیں تو دہلی میں حال ہی میں 1.05 کروڑ سے زیادہ گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں۔ راجدھانی میں 31.72 لاکھ کاریں اور 66.48 لاکھ اسکوٹر رجسٹرڈ ہیں جو آلودگی کی سب سے بڑی وجہ مانیں جاتی ہیں۔ آلودگی سے متعلق آئی تمام رپورٹوں میں بھی بڑھتی گاڑیوں پر تشویش جتائی جاچکی ہے۔ ایک طرف پبلک سسٹم کی بہتری کی بات کی جارہی ہے تو دوسری طرف صنعتی علاقوں اور یونٹوں پر نگرانی کرنے کی ۔ تھرمل پاور پلانٹ بند کرنے کی اسکیم بن رہی ہے۔ ای گاڑیوں کو بڑھاوا دینے کی بھی بات ہورہی ہے۔ بلا شبہ یہ سبھی کوششیں لائق خیر مقدم ہیں لیکن یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ آلودگی کی روک تھام کیلئے جب تک اجتماعی سانجھے داری نہیں ہوگی تب تک تمام قدم کاغذی ہی ثابت ہوتے رہیں گے۔ یہ سانجھیداری بھی ایک دم بنیاد سے لیکر اوپری سطح تک ہونا ضروری ہے۔ سبھی محکموں کو آپس میں تال میل بنا کر چلنا ہوگا۔ مرکز اور ریاستی سرکار کو کم سے کم اس برننگ اشو پر مل بیٹھ کر دور رس پالیسی بنانی ہوگی۔ ان گاڑیوں کی بڑھتی تعداد کو کیسے کنٹرول کیا جائے اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ ایک دوسرے پر الزام لگانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟