چین ۔ پاک اقتصادی گلیارہ، سی پی ای سی پر کاروبار شروع

بھارت کے تمام اعتراضات کے باوجود چین۔ پاکستان اقتصادی گلیارے (سی پی ای سی) پرکاروبار شروع ہوگیا ہے۔ اس کے تحت پیرکو 100 سے زیادہ چینی کنٹینر ایکسائز کی منظوری کے بعد پھاٹک پہنچے۔ پھاٹک کا افتتاح ایک دن پہلے ہی کرلیا گیا تھا۔ 650 کلو میٹر لمبا حصہ سی پی ای سی کا گلگت ۔بلتستان سے گزرتا ہے،جو بھارت کا حصہ ہے۔ پاکستان اس یوجنا کومنظوری دینے کے لئے مجاز نہیں ہے کیونکہ یہ بھارت کے خلاف ہے اور ان حصوں سے پاکستانی مقبوضہ کشمیر سے گزرتا ہے جو بھارت کا حصہ ہیں۔ اس کا اعتراض وزیر اعظم نریندر مودی نے چین کے صدر سے بھی کیا تھا۔ 51 ارب ڈالر کی لاگت سے بن رہا یہ پروجیکٹ 3 ہزار کلو میٹر لمبا ہے اور یہ سڑک پاکستان کے گوادر کو چین کے کاسگر سے جوڑتی ہے۔ سڑک کے ساتھ ساتھ ریل لائن ،گیس پائپ لائن بچھانے کی تجویز ہے۔شنترپاس ، بابو سرمارگ اور گلگت ۔اسکائی مارگ کی تعمیر کرانے کا بھی وعدہ ہے۔ 100 سے300 کے قریب کنٹینر پہلے دن پاکستانی مقبوضہ کشمیر کی سرحد میں داخل ہوئے۔ 1 ہزار ٹرک ہر ہفتے قراقرم شاہراہ سے ہوکر گلگت۔ بلتستان میں داخل ہوں گے۔ بتادیں سورنت پاک مقبوضہ کشمیر کے گلگت۔ بلتستان کے ہنجا علاقے کا ایک گاؤں ہے یہ چینی سرحد سے پہلے قراقرم شاہراہ پر آخری گاؤں ہے۔ چینی کنٹینر ایکسائز کی منظوری کے بعد گوادر کے لئے روانہ ہوئے۔ پھاٹک کی افتتاحی تقریب میں گلگت۔بلتستان کے وزیر اعلی حفیظ الرحمان اور گلگت ۔بلتستان کے فورس کمانڈر ثاقب محمود ملک کے ساتھ چین کے کئی افسرا بھی شامل ہوئے۔تقریب میں اپنے افتتاحی خطاب میں رحمان نے کہا سی پی ای سی کے ذریعے گلگت۔ بلتستان کی قسمت بدل جائے گی۔ 16 لاکھ لوگوں کو اس پروجیکٹ سے درپردہ طور پر روزگار ملنے کی امید کی جارہی ہے۔ پروجیکٹ کی سکیورٹی کے لئے پاکستان نے پوری طاقت جھونکی ہے۔ ساحلی فورس سے لیکر ایئر فورس کو لگایا ہے اور 14503 پاک سکیورٹی ملازم سی پی ای سی کی تعمیر میں کام کررہے 7036 چینی مزدوروں کی سکیورٹی میں تعینات ہیں۔ اس پروجیکٹ سے چین مغربی وسطیٰ سے تیل کی سیدھی سپلائی پائپ لائن کے ذریعے ہوسکے گی۔ بھارت سے کشیدگی کی صورت میں بحر ارب پر حکمت عملی بڑھا سکے گا۔ جغرافیائی ساگر کے راستے بھارت کو ہونے والے کاروبار پر نظر رکھ سکے گا۔ چین کے توقع سے کم تیار مغربی علاقوں کی ترقی ہوسکے گی۔ چین اور پاکستان کی بڑھتی دوستی کے پیچھے ایک بڑی وجہ ہے کہ یہ ذاتی گلیارہ۔ جہاں دونوں دیشوں کو فائدہ ہوگا وہ ہیں دونوں کے دشمن بھارت کو نقصان ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟