تھیریسا اور مودی میں اچھی کیمسٹری سے دونوں کا فائدہ

وزیر اعظم کے ذریعے 1000 اور 500 کے نوٹوں کے سرجیکل اسٹرائک کے درمیان پیدا افراتفری میں برطانیہ کی وزیر اعظم محترمہ تھریسا میتھ کا دورہ ہنددب گیا۔ سبھی کی توجہ اس سرجیکل اسٹرائک پر چلی گئی۔ تھیریسا کا یوروپ کے باہر یہ پہلا دورہ تھا۔ انہوں نے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ کئی اشوز پر بات کی۔ یہ اتفاق بھی ہوسکتا ہے لیکن خود برطانیہ میں ان کے اس دورہ کو جس طرح سے بہت امیدوں سے جوڑ کر دیکھا گیا اس سے یہی لگتا ہے کہ یہ محض اتفاق نہیں تھا۔ دراصل اس دورہ کو یوروپی فیڈریشن سے الگ تھلگ ہونے کے فیصلے کے بعد برطانیہ کے مستقبل کی تیاریوں سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ برطانیہ میں یہ عام خیال ہے کہ اقتصادی مواقعوں میں اضافے کے لئے برطانیہ کے لئے اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ وہ چین ، بھارت اور برازیل جیسے ملکوں کے ساتھ کاروباری رشتے بڑھائے۔ برطانیہ کی پی ایم کا دورہ ہند کے کئی معنی ہیں۔چاہے وہ ہندوستانی پس منظر میں ہو یا پھر برطانوی پس منظر میں۔ جس طرح دونوں دیشوں کے ہم منصب سربراہ مملکت کے درمیان کئی اشوز پر اتفاق رائے بنا ہے وہ مستقبل کے لئے بہت اہم اور ضروری تھا۔ دونوں ملکوں نے میک ان انڈیا تکنیک منتقلی اور کئی نئے امکانات پر بھی غور وخوض کیا۔ ساتھ ہی ریسرچ کے ذریعے آپسی تعاون پر بھی خاص اتفاق رائے جتایا۔ یہ قدم ہر نقطہ نظر سے لائق خیر مقدم ہے۔ دوسرا اہم کارنامہ یہ رہا کہ دونوں ملکوں نے آن لائن دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے سائبر سکیورٹی فریم ورک بنانے کا عہد کیا ہے جس سے دہشت گردوں کی ساری سرگرمیوں پر نظر رکھنے میں بیحد آسانی ہوگی۔ بھارت کے لئے برطانیہ کئی معنوں میں اہم ہے۔وہ یوروپ میں بھارت کا سب سے بڑا کاروباری سانجھیدار رہا ہے اس کے علاوہ باقی یوروپ میں بھارت کے لئے ایکسپورٹ بڑھانے میں مددگار بھی اس لئے 2014ء میں ہی مودی نے بجلی ڈیفنس اور میڈیکل سمیت کئی سیکٹروں میں آپسی اشتراک بڑھانے میں دلچسپی دکھائی تھی لیکن برطانیہ کی سخت ویزا اور امیگریشن پالیسی کی وجہ سے وہ پروان نہیں چڑھ پائی اس لئے یہ فطری ہی تھا کہ تھیریسا سے ہوئی بات چیت میں مودی نے برطانیہ کی ویزا پالیسی کے سبب آنے والی مشکلات کا ذکر کیا۔ برطانوی پی ایم نے کاروباریوں کے لئے ویزاپالیسی کو آسان بنانے کا بھروسہ دلایا لیکن ہندوستانی طلبا کے بارے میں انہوں نے نرمی کا کوئی تسلی بخش وعدہ نہیں کیا۔ برطانیہ کو اس بات کی شکایت ہے کہ اسٹڈی ویزا پر وہاں آنے والے بہت سے لوگ ویزا کی میعاد پوری ہونے کے بعد بھی وہاں سے واپس نہیں جانا چاہتے۔ مشترکہ بیان میں پی ایم مودی نے اقوام متحدہ میں ہندوستان کی ممبر شپ اور این ایس جی میں بھارت کی دعویداری کو مسلسل حمایت دینے کیلئے بھارت کی کمپنیوں سے کہا کہ بھارت کے ڈیفنس سیکٹر میں ان کے لئے کافی مواقع ہیں۔ تھیریسا نے کہا کہ برطانیہ یوروپی یونین سے الگ ہورہا ہے اور بھارت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اس لئے دونوں کو اس موقعہ کا فائدہ مل جل کر اٹھانا چاہئے کیونکہ برکزیٹ کے حمایتی ممالک مانتے ہیں کہ اب برطانیہ کو یوروپ سے باہر اپنے پیر پھیلانے ہوں گے۔ پچھلے کچھ عرصے سے ہندوستانی صنعتکاروں نے برطانیہ میں سرمایہ کاری کرنے میں خاصی دلچسپی دکھائی ہے ان میں برطانیہ کی کئی کمپنیوں کا تحویل میں لینا بھی شامل ہے۔ دہشت گردی کے خلاف بھارت کے ساتھ تعاون کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے برطانیہ نے دو ٹوک کہا کہ کسی دہشت گرد کو شہید کہہ کر اس کی قصیدہ خانی نہیں کی جانی چاہئے۔ سمجھا جاسکتا ہے کہ اشارہ برہان وانی کی طرف ہی ہوگا جسے پاکستان نے شہید اعلان کیا تھا۔ کل ملا کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستانی دورہ کے دوران برطانوی وزیر اعظم اور ہندوستانی وزیر اعظم میں ایک اچھی کیمسٹری بنی ہے جس کا آنے والے دنوں میں دونوں دیشوں کو فائدہ ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟