ذراعت سیکٹر میں محض1.6 فیصدی اضافہ تشویش کا موضوع ہے

ہندوستان نہ صرف ایک ذراعت کفیل ملک ہے بلکہ ہندوستانی معیشت کی بنیاد بھی ذراعت ہے۔ بھارت کے جی ڈی پی میں ذراعت اور اس سے متعلق سیکٹروں کا اشتراک 2010-11 ء میں 14.5 فیصد رہا۔ 12 ویں پانچسالہ منصوبے کے تحت پہلے چار سال میں فی برس ذراعت سیکٹر کو اوسطاً 4فیصدی اضافہ شرح کے ساتھ ٹارگیٹ تک پہنچنے کے لئے جدوجہد کرنا پڑا ہے۔ محض 1.6فیصدی شرح سے کھیتی میں جھنڈے نہیں گاڑھ سکتے۔ اوسط سے کم اضافے کے سبب دیش کی تشویشات بڑھنا فطری ہی ہے۔ 2 سال بعد اس سال مانسون ٹھیک رہنے سے ذراعتی پیداوار کے ٹھیک رہنے کی امید کی جارہی ہے جس سے اس سیکٹر میں بہتر کارکردگی کی امیدیں روشن ہوئی ہیں۔ نیتی آیوگ کے ایک سینئر ممبر نے مانا کہ پچھلے کچھ برسوں میں قیمت رعایت پر زیادہ ہی انحصار نے ذراعت اضافے کو کمزور بنا دیا ہے۔ سال 2012ء سے 2017ء کے درمیان 12 ویں پانچسالہ منصوبہ میں ذراعت میں بھارت کے پہلے چار سال میں 1.6فیصد اضافہ رہا جو کہ 4فیصد کے ٹارگیٹ سے بھی بہت دور ہے۔ سال2005ء سے2012ء تک ذرعی اضافہ 3.5 فیصد سے زیادہ تھا لیکن خاص طور سے قیمتوں کی وجہ سے کسی بھی اضافے میں کمزوری آئے گی۔ قلیل مدت میں قیمت فروغ کا نتیجہ سامنے آسکتا ہے لیکن وسطی اور قلیل مدت میں نہیں۔ یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اضافے میں سلسلہ وار تبدیلیوں کو کیسے دور کر سکتے ہیں۔ ہمیں اقدامات پر زور دینے کی ضرورت ہوگی تاکہ کسی بھی برس میں 2.5فیصد سے نیچے اضافہ نہ رہے۔ قیمت کا استعمال ذراعت کے نشانے پر ہے لیکن قلیل مدت میں ذراعتی پیداوار میں اضافہ حاصل کرنے کے لئے عمدہ سورس نہیں ہے۔ اگر اضافہ کافی حد تک قیمتوں پر منحصر ہوتا ہے اسے برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ قیمتوں کی مدد اضافے کے ٹارگیٹ کو حاصل کرنے کیلئے لی جانی چاہئے نہ کہ اضافے کو کمزور بنانے کے لئے۔ اس کے بجائے اضافہ بنیادی ڈھانچہ، سنچائی ،نجی سرمایہ کاری، مقابلہ جاتی اور ٹکنالوجی پر مرکوز ہونا چاہئے۔ سرکار ذراعت میں غیر قیمت عوامل کی صلاحیت کا استعمال کرنے کی کوشش کررہی ہے جو اہم ہے۔ اسپرنگ کلر اور ڈرپ سینچائی اور کھاد کے کفایتی استعمال لاگت کنٹرول سسٹم ، کھاد سبسڈی کو بادلیل بنانے کیلئے سوشل ہیلتھ کارڈ کے ذریعے کھاد کے بہتر استعمال کر پیداوار بڑھانے کی سمت میں ہمیں اپنی توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ سرکار کی کوشش پیداوار کی لاگت بڑھائے بغیر اضافے کو مضبوط رکھنا ہوگی۔ خیال رہے کہ اگر دیش کا کسان خوشحال ہے تو دیش خوشحال ہے۔ دیہی علاقوں میں ڈھانچہ بندی ،تعمیراتی کام کے ذریعے کسانوں کی آمدنی بڑھانے پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟