گوگل، فیس بک ،ٹوئٹر اور بڑھتی دہشت گردی

انٹر نیٹ اور ٹکنالوجی یہ دنیا بڑی رنگین ہے۔ اس دنیا میں آنے کے بعد یہاں سے نکلنا اتنا آسان بھی نہیں ہے لیکن جتنی رنگین ہے اتنی ہی خطرناک بھی ہے۔ یہاں بھی آپ کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے ہوتے ہیں۔ یہاں چوریاں بھی بلا روک ٹوک ہوتی ہیں۔ آپ کے پاس اپ دیٹ سافٹ ویئر ہو یا ہارڈ ویئر کوئی فرق نہیں پڑتا اور ان چوریوں کو کہتے ہیں ’سائبر کرائم‘ ۔ انٹر نیٹ آج دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کا ایک بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ بھارت میں بھلے ہی زیادہ تر سرکاری کام ٹوئٹر، فیس بک سے ہو برطانیہ کے ممبران نے گوگل، ٹوئٹر اور فیس بک پر دہشت گردی پھیلانے کا الزام لگایا ہے۔ برطانیہ کے وزارت داخلہ کی سلیٹ کمیٹی نے اپنی ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انٹر نیٹ کی یہ سرکردہ ہستیاں اپنی سائٹس پر نہ صرف دہشت گردی کو بڑھانے میں مدد کررہی ہیں بلکہ دہشت گردوں کی بھرتی میں بھی مدد کررہی ہیں۔ برطانوی ممبران پارلیمنٹ کی اس کمیٹی کے چیئرمین ہندوستانی نژاد کیتھ واج ہیں۔ کمیٹی نے کہا اربوں ڈالر کمانے والے گوگل ۔فیس بک اور ٹوئٹر جیسے بڑے کارپوریشن جان بوجھ کر دہشت گردانہ خطروں اور دھمکیوں کو نہیں روک پا رہے ہیں۔
گوگل کے یو ٹیوب سے دہشت گردوں کے پوسٹ کئے گئے ویڈیو نہیں ہٹائے جارہے ہیں۔ فیس بک ، ٹوئٹر ، یو ٹیوب پروپگنڈہ پھیلانے کیلئے پسندیدہ ذریعہ ہے۔ اس کے ذریعے سے دہشت گردی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ یہ اربوں ڈالر ان کے ذریعے کما رہے ہیں اس لئے انہیں ذمہ دار ہونا چاہئے۔ اس ذریعے سے جاری آتنکی مواد کا جنتا پر سیدھا اثر پڑتا ہے۔ ٹوئٹر، فیس بک اور گوگل نے بھی کمیٹی کے سامنے اپنا موقف رکھا ہے۔ انہوں نے دعوی کیا ہے کہ پوری طرح سے وہ ذمہ دار ہیں اور سکیورٹی ایجنسیوں سے ہر طرح کا تعاون کررہے ہیں۔ ہم نے بھارت میں بھی دیکھا ہے کہ کس طرح ان سوشل سائٹ سے متاثر ہوکر ہمارے کچھ نوجوان آئی ایس کی طرف جھکے ہیں۔ بہتر تو یہ ہوگا کہ یہ سائٹس ایسے سارے مواد کو اپنی سائٹس سے ہٹا دیں جس سے دہشت گردی کو بڑھاوا ملتا ہے اور گمراہ لڑکوں کو آتنک کی دنیا کی طرف راغب کرتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟