جناب آپ چائنیز گول گپے کھا رہے ہیں!

اکثر یہ اشو اٹھتا ہے کہ بھارت میں چین کے ذریعے تیار چیزوں کی سپلائی مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ ایسا کوئی علاقہ نہیں بچا جہاں چینی مال ہمارے بازاروں میں نہیں دکھائی دیتا ہو۔ مجھے حیرانی اس وقت ہوئی جب میڈیا میں ایک رپورٹ شائع ہوئی کہ آپ چائنیز گول گپے بھی کھا رہے ہیں۔ جناب گول گپا،پانی پوری کا نام آتے ہی کسی بھی ہندوستانی کے منہ میں پانی آجاتا ہے۔ حال ہی میں آئی فلم ’کوئن‘ میں بھی اسے دکھایا گیا ہے کہ جب ہندوستانی لڑکی اپنی دوکان یوروپ میں لگاتی ہے تو ایک انگریزی سے دوستی ہونے کی بات کہہ کر گول گپا کھلانے والے کو چاٹا مار دیتا ہے حالانکہ بعد میں وہ خود اسے کھانے پہنچ جاتا ہے۔ بھلے ہی باہر کے دیشوں میں گولہ گپا انجان ہو لیکن چین نے کئی چیزوں کی طرح بھارت کے اس روایتی کھانے پینے کے بازار کو چاول کے آٹے کے گول گپے کے ذریعے قبضانے میں بھی کچھ کامیاب کرلی ہے۔چائنیز گولہ گپا 140 روپے فی کلو کے حساب سے مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ صدر بازار ہو یا دہلی و این سی آر کے کئی علاقوں میں گول گپے کی دوکانیں کھل گئی ہیں۔ان میں سے بہت سے اسے منافع کا سودا مان کر بیچنے میں لگے ہوئے ہیں۔ حالانکہ جن گول گپے بیچنے والوں کا بڑا نام ہے وہ ابھی اپنے گول گپوں کے ساتھ ملا کر یا اسے بیچنے سے بالکل بچ رہے ہیں۔ نئی دہلی میں گول گپے کی ریڑی لگانے والے کے مطابق ایک کلو میں400 چائنیز گول گپے بنتے ہیں۔ اسے تولنے کے بعد فی گول گپا قریب30سے35 پیسے کا پڑتا ہے جبکہ خود کا تیار کیاگول گپے کی قیمت40 سے50 پیسے آتی ہے اور محنت الگ۔ ہم 20 روپے کے 8 گول گپے کھلا رہے ہیں۔ ہمارا اپنا ذائقہ گراہکوں کو ملتا رہے اس لئے ہم اپنے گول گپوں میں چائنیز گول گپے ملا کر کھلاتے ہیں۔ ادھر اسمارٹ فون کے دیوانے گراہوں کو سستے اور ڈولپ تکنیک پر مبنی اسمارٹ فون کی دستیابی میں بھی چینی کمپنیاں پیچھے نہیں ہیں۔کنسلٹنٹ کمپنی کاؤنٹر پوائنٹ ریسرچ کی رپورٹ کے مطابق روانہ برس کی دوسری سہ ماہی میں اپنی مضبوط ڈلیوری سروس کے سہارے ہی چین کی کمپنی ہوہوائی 3 کروڑ 5 لاکھ اسمارٹ فون بیچ کر مائیکروسافٹ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے پہلی بار دنیا کی تیسری سب سے بڑی کمپنی بن گئی ہے۔اس دوران اس کی عالمگیر فروخت سال2014 کی دوسری سہ ماہی میں2 کروڑ 6 لاکھ کے مقابلے 48.1 فیصد زیادہ ہے۔ ماہرین کی مانیں تو شاندار لک اور فیچر کے ساتھ ہی 10 ہزار روپے (150 ڈالر) سے کم کے اسمارٹ فون اتار کر چین کی ہوہوائی، شیومی، جیٹ ٹی ای اور لینیوی جیسے موبائل فون بنانے والی کمپنیاں پہلے ہی دھمال مچا چکی ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟