تعطل دور کرنے کیلئے ’’نو ورک نو پے‘‘ اصول نافذ کرنا چاہئے

پارلیمنٹ کے دو سیشن ہنگامے کی نظر ہوچکے ہیں اور آگے بھی پارلیمنٹ کے چلنے کا امکان کم ہی دکھائی پڑ رہا ہے۔جاری تعطل کو دور کرنے کے مقصد سے ایک بار پھر آل پارٹی میٹنگ بلائی گئی تھی لیکن میٹنگ سے پہلے ہی کانگریس اور بھاجپا میں تلخ زبانی کے تیر چلنے شروع ہوگئے تھے۔ کانگریس اپنے پرانے موقف پر اٹل ہے کہ جب تک مودی سرکار سشما سوراج ،وسندھرا راجے اور شیو راج سنگھ چوہان کے استعفوں پر کوئی ٹھوس ریزولیوشن سامنے نہیں لاتے تب تک کانگریس مود سرکار سے کوئی بات چیت نہیں کرے گی۔ اس پر کانگریس کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے مرکزی وزیر نرملا سیتا رمن نے ایتوار کو کہا کہ استعفے پر اڑیل رہ کر کانگریس اپنے ہی بنے جال میں پھنس گئی ہے۔ اس صورت سے سنمان جنک طریقے سے نکلنے کیلئے اس کے لئے یہ ہی راستہ ہوگا کہ وہ للت مودی معاملے پر پارلیمنٹ میں بحث کے لئے راضی ہوجائے۔ مرکزی وزیر خزانہ ارن جیٹلی نے کانگریس پر جی ایس ٹی بل کو پاس ہونے سے روکنے میں اڑچن ڈالنے کا الزام لگایا ہے۔ کانگریس لیڈر آنند شرما نے کہا کہ وزیر خزانہ اور بی جے پی لیڈروں کے بیانوں سے صاف ہے کہ سرکار پارلیمنٹ میں تعطل دور کرنے کے تئیں سنجیدہ نہیں ہے۔ کانگریسی ان کی جوترادتیہ سندھیا نے بھی دوہرایا کہ جب تک ملزم بی جے پی لیڈروں کے استعفے نہیں ہوجاتے تب تک کانگریس کسی بحث میں حصہ نہیں لے گی۔ جنتا اپنی گاڑھی کمائی سے اپنے عوامی نمائندوں کو پارلیمنٹ ٹھپ کرنے کیلئے نہیں چنتی ایک منٹ کی پارلیمنٹ کی کارروائی پر قریب ڈھائی لاکھ روپے خرچ آتے ہیں اس طرح کروڑوں روپے برباد ہوچکے ہیں۔ اس دوران پارلیمنٹ میں جاری تعطل کے درمیان مرکزی وزیر مہیش شرما نے تجویز رکھی ہے کہ ممبر پارلیمنٹ کیلئے کام نہیں تو تنخواہ نہیں کی پالیسی نافذ ہونی چاہئے۔ جیسے افسروں کے سلسلے میں نافذ ہوتی ہے۔وزیر سیاحت و ثقافت مہیش شرما نے بنارس میں اخبار نویسوں سے کہا کہ سرکار کے سینئر وزیر اپوزیشن کے رابطے میں ہیں اور کام کاج کو ٹھیک ڈھنگ سے چلانے کیلئے کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مرکزی حکومت پارلیمنٹ میں کام کاج میں رخنہ ہونے کے پیش نظر ممبران کیلئے’ کام نہیں تو تنخواہ نہیں‘ سے متعلق کسی تجویز پر غور کررہی ہے۔ کیونکہ جنتا کا پیسہ برباد ہورہا ہے۔ قابل ذکر ہے 21 جولائی سے شروع پارلیمنٹ کے مانسون سیشن کے دوران کارروائی ٹھیک ٹھاک طور سے نہیں چل رہی ہے۔ لگتا ہے تعطل دور کرنے کیلئے اب خود وزیر اعظم کو پہل کرنی ہوگی۔ کوئی تو راستہ نکالنا ہوگا۔ کانگریس اپنی مانگ پر اتنی بری طرح سے اڑی ہوئی ہے کہ اس کا پیچھے ہٹنا مشکل لگتا ہے اور سرکار استعفیٰ نہیں دلا سکتی، محض الزامات پر اس لئے کوئی بیچ کا راستہ ایسا نکالنا ہوگا جس سے دونوں فریقین کی بات رہ جائے اور یہ کام اب صرف پی ایم مودی ہی کرسکتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟