بڑھتی آبروریزی کی جھوٹی شکایتیں

پچھلے دو برسوں سے دیش میں عورتوں کے ساتھ ہونے والے جرائم کے تئیں جہاں اہمیت کی حامل حساسیت دیکھی جارہی ہے وہیں دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ کچھ خواتین اس حساسیت کا بیجا استعمال کرنے میں لگی ہیں۔ بیشک دیش میں خواتین کے تئیں آبروریزی کے واقعات پہلے کے مقابلے بہت زیادہ درج ہوئے ہیں،وہیں یہ بھی صحیح ہے کہ آبروریزی کے بہت سارے واقعات جانچ کے بعد فرضی پائے جارہے ہیں۔ دہلی خاتون کمیشن نے اپنی جانچ پڑتال میں اپریل 2013 سے جولائی 2014 تک آئی آبروریزی کی کل شکایات2757 میں سے 1466 شکایتوں کو جھوٹا پایاگیا۔ان معلومات سے لگتا ہے سماج میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو جنسی استحصال انسداد قانون کی سختی کا بیجا استعمال کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ کچھ دن پہلے سرو نیم پٹی پولیس کو خبر ملی گرلز ہاسٹل کے ایک کمرے میں 22 سال کی ایک لڑکی کے ساتھ دو لڑکوں نے آبروریزی کی ہے۔ لڑکی سے پوچھ تاچھ میں اس نے بتایا کہ خاندان کو ہونے والی شرمندگی کے سبب اس نے پولیس میں واردات کے بارے میں شکایت درج نہیں کرائی تھی۔ یہاں تک کہ اس نے پولیس کو دھمکی بھی دی کہ اگر انہوں نے شکایت درج کی تووہ خودکشی کرلے گی۔ پولیس کی جانچ میں سامنے آیا کہ ایک14 سال کی عمر سے ہی لڑکی کا اس لڑکے سے پیار محبت کا رشتہ تھا جس کے ذریعے آبروریزی کرنے کا الزام لڑکی نے لگایا تھا۔ پولیس افسران کے ذریعے معاملے کی سنجیدگی کے بارے میں آگاہ کئے جانے پر لڑکی نے قبول کیا کہ اس نے آبروریزی کی جھوٹی کہانی بنائی تھی۔ اس نے پولیس کو اپنے پیار محبت کے رشتے کے بارے میں بھی بتایا۔ یہ معاملہ پوسا روڈ کا ہے۔ پولیس نے افسران کے مطابق بین برادری شادی ہونے کے سبب لڑکی کے والدین لڑکے کے ساتھ اس کی شادی کرنے کو تیار نہیں تھے۔ لڑکی نے شادی سے بچنے کیلئے آبروریزی کا ڈرامہ کیا۔ زیادہ تر فرضی شکایتیں یا تو بدلہ لینے کی نیت سے یا پھر بلیک میلنگ کے مقصد سے کی جاتی ہیں۔ ان میں سے کئی شکایتیں لیو ان ریلیشن ٹوٹنے پر لڑکی کی طرف سے درج کرائی گئی ہیں جبکہ باقی میں پیسہ اینٹھنا مقصد ہے۔نربھیہ کانڈ کے بعد ایسا ماحول بن گیا ہے کہ کسی بھی خاتون کے ذریعے اس طرح کے بیان کو آخری سچائی مان لیا جاتا ہے اور مبینہ ملزم کو گرفتار کر اس کے خلاف چارج شیٹ دائر کردی جاتی ہے۔ اس کے چلتے جنسی استحصال کے جھوٹے معاملوں کا سیلاب سا آگیا ہے لیکن مہلا کمیشن کی رپورٹ کے بعد اگر کوئی اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ آبروریزی کے کافی معاملے جھوٹے ہوتے ہیں تو اسے اس کی مرد وادی فطرت سمجھی جانی چاہئے۔ ظاہر ہے فرضی معاملوں کا کچھ انتظام ضرور کرنا ہوگا لیکن جنسی استحصال کے سوال پر آ رہی بیداری میں بلی ہرگز نہیں دی جانی چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟