دنیا میں سب سے زیادہ سرکاری چھٹیاں بھارت میں ہوتی ہیں

اگر ہمیں دیش میں پیداوار بڑھانی ہے جیسا کہ وزیر اعظم نریندر مودی فرماتے ہیں، تو سرکاری چھٹیوں پر کنٹرول کرنا ہوگا۔بھلے ہی یہ سوچا جاتا ہو کہ ترقی پذیر ملکوں میں کام کرنے والے لوگ چھٹیوں سے زیادہ محروم رہ جاتے ہیں لیکن وہاں کے ہالی ڈے کلنڈر الگ ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہر سال بھارت میں سب سے زیادہ سرکاری چھٹیاں ہوتی ہیں۔ بھارت کے پڑوسی ملک بھی پیچھے نہیں ہیں۔ چین سے لیکر فلپین ،ہانگ کانگ، ملیشیا وغیرہ میں بھی جم کر چھٹیاں ہوتی ہیں۔ 21 سرکاری چھٹیوں کے ساتھ بھارت اس لسٹ میں پہلے نمبر پر ہے۔ اتنا ہی نہیں الگ الگ ریاستوں میں چھٹیوں کی تعداد اور بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ایک ٹریول پورٹل کے مطالعہ میں کئی ملکوں کی سرکاری چھٹیوں پر تیار کی گئی ’ووگو‘ نام کے اس پورٹل کے مطابق چھٹیوں کا مزہ لینے میں دوسرا نمبر فلپین کا ہے جہاں سال میں 18 سرکاری چھٹیاں ہوتی ہیں۔ اس طرح چین ،ہانگ کانگ میں17،تھائی لینڈ میں16، ملیشیا ۔ ویتنام میں15، انڈونیشیا میں14، تائیوان اور ساؤتھ کوریا میں13 ، سنگاپور میں 11 ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں10 سرکاری چھٹیاں ہوتی ہیں۔ یوروپی ممالک میں چھٹیوں کا برا حال نہیں مانا جاسکتا۔سوئڈن اور لتھوانیا میں15چھٹیاں دی جاتی ہیں۔ اس کے بعد سلواکیہ میں14 ،آسٹریا ۔بلجیم اور ناروے میں13، فن لینڈ اور روس میں12 چھٹیاں ملتی ہیں۔ حالانکہ اسپین اور انگلینڈ میں زیادہ چھٹیاں نہیں دی جاتیں۔ دونوں ہی دیشوں میں محض18 سرکاری چھٹیاں ہیں۔ اسی طرح امریکہ میں بھی اس سال محض11 چھٹیاں دی جائیں گی۔ اگر بھارت کو صحیح معنوں میں ترقی کرنی ہے تو ان چھٹیوں پر کنٹرول کرنا ہوگا۔ ایک ترقی پذیر ملک اتنی چھٹیاں نہیں کرسکتا۔ چھٹیوں کے علاوہ ہڑتالیں، کام روکو تحریک بھی نقصان پہنچاتی ہیں۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ صرف قومی چھٹیاں ہونی چاہئیں جیسے 26 جنوری،15 اگست وغیرہ۔ مذہب پر مبنی چھٹیاں بندشی ہونی چاہئیں۔اتنی چھٹیوں کے ساتھ جب زیادہ سردی پڑے تو مجبوراً بچوں کے اسکولوں کی چھٹیاں بھی کرنی پڑتی ہیں۔ دیش کے وزیر اعظم خود بھی اتنی چھٹیاں نہیں کرتے۔ صبح8 بجے دفتر میں پہنچ جاتے ہیں اور دیر رات تک کام کرتے ہیں۔ وہ اتنی چھٹیاں نہیں کرتے جتنی بابو کرتے ہیں، منتری بھی نہیں کرتے۔ دنیا کے باقی ملکوں کو دیکھئے کہ 8سے12 چھٹیاں زیادہ سے زیادہ ہوتی ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی اس مسئلے پر توجہ دیں گے اور مناسب فیصلہ کریں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟