دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے

دہلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی پوزیشن پر یہ کہاوت کھری اترتی ہے۔ پچھلے سال دہلی اسمبلی چناؤ میں بھاجپا اکثریت سے کچھ سیٹوں سے پیچھے رہ گئی تھی اور نتیجہ یہ ہوا وہ سرکار نہیں بنا سکی۔ایک سال کیلئے دہلی کے شہریوں کو صدر راج جھیلنا پڑا۔ لگتا ہے کہ بھاجپا پردھان امت شاہ کو یہ سمجھ میں آگیا ہے کہ کہیں 7 فروری کو پھر پرانی تاریخ نہ دہرانی پڑجائے اس لئے بھاجپا نے باقی بچے7 دنوں میں اپنی پوری طاقت جھونکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عام آدمی پارٹی سے اس کو زبردست ٹکر ہے اور آج کی تاریخ میں ’آپ‘ کا پلڑا بھاری دکھائی دے رہا ہے۔ بھاجپا پردھان امت شاہ دہلی کی چناوی تیاریوں کو لیکر بیحد ناراض ہیں۔ انہوں نے جمعرات کے روز چناؤ میں اہم ذمہ داری سنبھال رہے پردیش اور مرکزی لیڈروں کی کلاس لے لی اور دو ٹوک کہا جس کے پاس جو ذمہ داری ہے وہ اسی تک محدود رہے۔ چناؤ کے بعد سبھی کے کام کا جائزہ لیا جائے گا۔ 
دہلی پردیش دفتر میں محض15 منٹ کا جائزہ لینے آئے شاہ نے تقریباً2 گھنٹے تک سبھی لیڈروں کی جم کر کلاس لی۔ انہوں نے پردیش کے نیتاؤں کو پھول مالائیں پہننے اور ورکروں کی نمستے لینے میں مصروف رہنے پر بھی ناراضگی جتائی اور کہا کہ ہوا میں اڑنے کے بجائے زمین پر کام کریں۔
اس میٹنگ کے بعد مرکزی وزیر اننت کمار نے کہا کہ دہلی میں دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے کے لئے ہم نے پوری طاقت جھونکنے کا فیصلہ کیا ہے باقی بچے وقت میں وزیر اعظم مودی کی چار ریلیوں سمیت بی جے پی کی چھوٹی بڑی 250 ریلیاں ہوں گی۔ ان کا کہنا ہے دہلی میں بی جے پی کا چناؤ منشور نہیں جاری کیا جائے گا بلکہ پارٹی کا ویژن ڈاکومینٹ پیش کرے گی۔ بی جے پی دہلی چناؤ کو لیکر کتنی سنجیدہ ہے اس کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ کمپین کی کمان مرکزی وزیر ارون جیٹلی کو سونپ دی گئی ہے۔اس کے علاوہ پارٹی نے دہلی میں کمپین کیلئے بچے ایک ہفتے کے لئے مختلف ریاستوں سے وابستہ 120 ممبران پارلیمنٹ کو اتار کر طوفانی کمپین چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیرن بیدی کو وزیر اعلی کا امیدوار بنا کر بھاجپا نے اپنی حکمت عملی بدل لی ہے۔
عام آدمی پارٹی کے ساتھ کانٹے کے مقابلے میں ایک بار پھر وزیر اعظم مودی کے نام پر ووٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالانکہ کیرن بیدی پہلے کی طرح دھواں دھار کمپین کرتی رہیں گی مگر پارٹی لیڈر شپ نے چناؤ کمپین کیلئے اتارے گئے دیش بھر کے لیڈروں کو مودی کے نام پر ووٹ مانگنے کی ہدایت دی ہے۔ 
یہ ہی نہیں اگر مودی کی چار ریلیوں میں توقع کے مطابق بھیڑ اکھٹی ہوئی تو پارٹی ان کی ریلیوں کی تعداد بڑھا سکتی ہے۔ اندرونی سروے میں اقلیتیں ،دلت، سکھ طبقے کے ووٹروں کا عام آدمی پارٹی کے تئیں گہرا جھکاؤ قائم رہنے کے متعلق اعدادو شمار نے پارٹی لیڈر شپ کی تشویش بڑھا دی ہے۔ پارٹی صدر امت شاہ نے نہ صرف محض مرکزی وزرا بلکہ مرکزی لیڈروں کو ایک ایک کرکے اسمبلی سیٹ کی ذمہ داری سونپی ہے بلکہ یہ بھی کہا کہ متعلقہ سیٹ پر ہار جیت کی ذمہ داری طے کی جائے گی۔ بدقسمتی دیکھئے دہلی کے ووٹروں کی نبض ٹٹولنے میں لگے بھاجپا کے حکمت عملی سازوں کی نگاہیں اب کانگریس پر ٹکی ہیں کیونکہ عام آدمی پارٹی اور کانگریس کا ووٹ بینک تقریباً ایک ہے اس لئے اس کی تقسیم کا سیدھا فائدہ بھاجپا کو ملے گا۔ ایسے میں دہلی اسمبلی چناؤ میں بھاجپا کا مستقبل کچھ حد تک کانگریس کی کارکردگی پر ٹکا ہے۔
راہل گاندھی کے روڈ شو اور دہلی میں ہوئی ریلیوں میں بھاری بھیڑ اکھٹی ہونے سے جہاں کانگریسی حکمت عملی ساز گد گد ہیں وہیں بھاجپا امید کررہی ہے کہ دلت مسلم ووٹ کانگریس کی طرف جا سکتے ہیں اس لئے راہل گاندھی کے روڈ شو میں بھاری بھیڑ سے کانگریس کے ساتھ بھاجپا نیتا بھی خوش ہیں۔ دہلی کا درمیانہ طبقے کا کنبہ بھاجپا کے نزدیک مانا جاتا ہے جس میں پچھلے اسمبلی چناؤ میں کیجریوال نے سیند لگادی تھی۔جس کی وجہ سے بھاجپا سرکار بننے سے چوک گئی تھی۔ 
بھاجپا کے تجزیئے کے مطابق تقریباً پانچ فیصد درمیانی کنبے کا ووٹ اس سے دور ہوکر ’آپ‘ کے ساتھ جڑ گیالیکن جلد ہی اروند کیجریوال کا کریز ختم ہوگیا اور چار ماہ بعد ہوئے لوک سبھا چناؤ میں بھاجپا میں لوٹ آیا۔ اس چناؤ میں بھی اس طبقے کی حمایت بھاجپا کو ملنے کی امید ہے اور اس کیلئے بوتھ سطح پر کام کیا جارہا ہے۔ بھاجپا کے ایک لیڈر کا کہنا ہے لوک سبھا چناؤ میں کانگریس کو تقریباً 15 فیصد ووٹ ملا اور بھاجپا کو60 اسمبلی سیٹوں پر بڑھت رہی اگر کانگریس اس بار15 سے18 فیصد ووٹ حاصل کرلیتی ہے تو بھاجپا کو فائدہ ہوگا اور اسے زیادہ سیٹیں ملیں گی لیکن اگر کانگریس کے ووٹ فیصد میں کمی آئے گی تو بھاجپا کو نقصان ہوگاعام آدمی پارٹی کو فائدہ ملے گا۔ 
عورتوں کی حمایت کو لیکر بھی بھاجپا کے حکمت عملی ساز گد گد ہیں۔ ان کا کہنا ہے دیش کی پہلی سابق آئی پی ایس افسر کیرن بیدی کو وزیر اعلی عہدے کا امیدوار بنائے جانے سے مہلاؤں کی حفاظت کے لئے بیدی بہتر طریقے سے کام کریں گی۔ اسی طرح اکالیوں کے ساتھ معاہدہ برقرار رہنے اور سکھ دنگا متاثرین کو معاوضہ رقم بڑھانے اور دہلی کے کئی سکھ لیڈروں کے بھاجپا میں شامل ہونے سے پارٹی کو سکھوں کی حمایت ملنے کی امید ہے۔ جیسا میں نے کہا کہ آج تقریباً مقابلہ کانٹے کا ہے اور عام آدمی پارٹی کا پلڑا بھاری دکھائی دے رہا ہے۔ ایک ہفتے میں امت شاہ کیا پاسہ پلٹ سکتے ہیں؟ دہلی کی عوام کو ایک مکمل اکثریت والی مضبوط سرکار چاہئے،یہ بھاجپا ہی دے سکتی ہے۔ اروند کیجریوال کا بھروسہ زیرو ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟