جے جے بورڈ کا متنازعہ فیصلہ اوپری عدالت میں چنوتی دینی ہوگی

دہلی اجتماعی آبروریزی کا چھٹا اور سب سے خطرناک مجرم لگتا ہے سستے میں چھوٹ جائے گا، اس لئے کہ جونائیل بورڈ نے اسے نابالغ قراردیا ہے۔بورڈ نے یہ انتہائی افسوسناک اور مایوس کن فیصلہ سنایا ہے۔ یہ فیصلہ ملزم کے سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر لیا گیا ہے۔ بورڈ نے نابالغ ملزم کو اترپردیش کے بدایوں ضلع کے بھوانی پور کے اس اسکول کے سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر نابالغ مانا ہے جہاں وہ دوسری کلاس تک پڑھا تھا۔ اسکول کے پرنسپل نے جے جے بورڈ کے سامنے 15 جنوری کو کہا تھا کہ اسکول ریکارڈ کی بنیادپر واردات والے دن اس ملزم کی عمر17 سال6 مہینے12 دن تھی۔ بورڈ کے سامنے اسکول کے سابق ہیڈ ماسٹر پیش ہوئے تھے۔ ریکارڈ کے مطابق ملزم نے 2002ء میں اسکول میں داخلہ لیا تھا تب اس کے والد نے اس کی عمر4 جون 1995ء لکھوائی تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا دوسری کلاس میں والد کے ذریعے لکھائی گئی تاریخ پیدائش صحیح ہے۔ اس کی عمر جانچنے کے لئے آج کل تو میڈیکل سائنس نے بہت ترقی کرلی ہے کیا اور کوئی سرٹیفکیٹ یا میڈیکل ٹیسٹ ایسا نہیں ہے جو عمر کا صحیح اندازہ لگا سکے؟ دہلی پولیس کے فرد جرم کے مطابق یہی نابالغ ملزم واردات کا سب سے بڑا گناہگار ہے۔ لڑکی کے ساتھ اس نے ہی سب سے زیادہ زیادتی کی تھی۔ منریکا بس اسٹینڈ پر لڑکی کو اس ملزم نے بہن بنا کر بس میں بٹھوایا تھا اور بدفعلی کے بعد اسی نابالغ ملزم نے لڑکی کے جسم میں لوہے کی زنک والی راڈ ڈالی تھی اور اس کے جسم سے آنتیں باہر کھینچ لی تھیں۔ بعد میں اسی نے لڑکی اور اس کے دوست کو برہنہ حالت میں بس کے نیچے پھینکنے کو کہا تھا۔ اب نابالغ قراردینے کے بعد اسے زیادہ سے زیادہ تیا سال کی سزا ہوسکتی ہے۔ یہ میعاد بھی اسے جیل میں نہیں بلکہ جونائیل اصلاح گھر اور اسپیشل ہوم میں کاٹنے ہوگی۔ بورڈ کا دہلی پولیس کی اس عرضی کو خارج کرنا اپنی سمجھ سے باہر ہے جس میں پولیس نے ملزم کی صحیح عمرپتہ لگانے کے لئے ہڈیوں کا ٹیسٹ کرانے کی مانگ کی تھی۔ دہلی پولیس کو یقینی طور سے بورڈ کے فیصلے کو اوپری عدالت میں چنوتی دینی چاہئے۔ یہ درندہ اتنی آسانی سے نہیں چھوٹنا چاہئے۔ نابالغ ہونے کی رعایت سے پہلے بھی بہت نقصان ہوچکا ہے۔ لکھنؤ میں17 سال کے ترون نے 3 سال کی بچی کے ساتھ بد تمیزی کی تھی اور بچی بے ہوش ہوگئی تھی اور اگلے دن جب ہوش آیا تو وہ ہسپتال میں تھی۔ ترون محض تین سال کی قید کے بعد باہر آگیا اور بچی آج بھی بیمار ہے۔ دوسرا کیس دہلی کے بدرپور کا ہے ۔ تین سال کی بچی سے پڑوس کے 17 سال لڑکے راہل نے بدفعلی کی اور اسے ادھ مری حالت میں چھوڑ کر بھاگ گیا۔ پولیس نے جانچ کے بعد راہل کو گرفتار کرلیا۔ کورٹ نے نابالغ قراردے کر تین سال کی سزا سنائی۔ تیسرے کیس میں کئی سال پہلے بہادرشاہ ظفر مارگ پر خونی دروازے کے اندر مولانا آزاد میڈیکل کالج کی طالبہ سے آبروریزی میں پکڑے گئے لڑکے نے عمر کا ثبوت اور اسکول سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر خود کو نابالغ بتایا تھا لیکن اس کی ہڈیوں کی جانچ ہوئی تو وہ حقیقت میں نابالغ ثابت ہوا۔ دہلی پولیس کے پاس یہ کیس ہے اور ہمیں یقین ہے کے وہ اوپری عدالت ضرور جائے گی اور اس درندے کی ہڈیوں کی جانچ کا حکم حاصل کرے گی تاکہ وہ اتنی آسانی سے چھوٹ نہ سکے۔ یہ محض تین مثالیں ہیں۔ دیش بھر میں ایسے کئی معاملے ہیں جہاں خطرناک جرائم کے باوجود ملزم اس لئے بچ جاتا ہے کیونکہ وہ نابالغ ہے۔نو عمری انصاف قانون میں ایسے اطفال ملزمان کے لئے تین سال تک کی ہی سزا کی سہولت ہے۔ اس کے پیچھے مقصد ہے ان کی اصلاحات کی کوشش۔ لیکن کیا ملزم سدھرتے ہیں؟ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی مانیں تو سدھار کے بجائے اس سے جرائم پیشہ افراد کا حوصلہ بڑھتا ہے۔ ایک دہائی میں اطفال ملزمان کے ذریعے جرائم میں تیزی آئی ہے۔ سال2000 میں جہاں نابالغ کے ذریعے کی گئی واردات کی تعداد198 تھی وہیں 2011ء میں یہ بڑھ کر1149 ہوگئی ہے ، یعنی پانچ گنا زیادہ۔ اس دوران نابالغوں کے ذریعے بدفعلی کے معاملوں میں بھی 70 فیصدی اضافہ ہوا ہے۔ معاملے بڑھنے کی خاص وجہ نابالغ کو ملنے والی معمولی سزا ہے۔ ظاہر ہے کے نابالغ ہونے کا سارا فائدہ ان درندوں کو مل رہا ہے جس سے نہ صرف ان کے حوصلے بڑھ رہے ہیں بلکہ کرائم کا گراف بھی تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟