پاکستانیوں نے ہندوستانی قیدی کو پیٹ پیٹ کرمار ڈالا

دو ہندوستانی فوجیوں کی لاشوں کے ساتھ پاکستانی فوجیوں کی بربریت کا معاملہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ وہاں کی جیل میں ہندوستانی قیدیوں کے ساتھ بربریت کی ایک اور واردات سامنے آئی ہے۔ الزام یہ ہے کوٹ لکھپت جیل کے افسروں نے نل پر کپڑے دھونے جیسی معمولی بات پر نہ صرف جموں و کشمیر کے اکھنور کے باشندے قیدی چمیل سنگھ کو مار ڈالا بلکہ واقعے کے ہفتے بھر بعد بھی چمیل سنگھ کی لاش بھارت بھیجنے کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ پاکستانی جیل افسروں کی بربریت کو اجاگر کرنے والے لاہور کے وکیل تحسین خاں کے مطابق پاکستان کے افسر چاہتے ہیں کے لاش اتنی دیر میں بھارت بھیجی جائے جس سے چوٹ اور خون کے نشان مٹ جائیں۔ ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی چمیل کی موت کی تصدیق کی ہے۔ لاہور میں اقلیتوں کے حق کے لئے جیسس ریسکیو نام کی این جی او چلانے والے وکیل تحسین خاں نے بتایا کہ 15 جنوری کو وہ بھی لاہور کی کوٹ لکھپت کی سینٹرل جیل میں بند تھے۔ اس دن صبح 8 بجے غلطی سے سرحد پار کرجانے سے پانچ سال کی سزا بھگت رہے جموں کشمیر اکھنور سیکٹر کے پرنوال باشندے چمیل سنگھ ،ولد ایسال سنگھ بیرک کے باہر لگے نل پر کپڑے دھونے لگا۔ تبھی ہیڈ وارڈن محمد نواز اور محمد صدیق نے اسے گندگی نہ پھیلانے کو کہا۔ اس پر چمیل (عمر قریب45 برس) نے کہا کے اسے کپڑے دھونے کی جگہ بتادیں۔ اس وقت وہاں جیل کا نائب سپرنٹنڈنٹ بھی آگیا اس کے سامنے ہی دونوں وارڈن نے چمیل کے سر اور آنکھ پر مارنا شروع کردیا۔ اچانک چمیل کی پٹائی سے آنکھ اور ماتھے سے خون نکلتا دیکھ جیل کے نائب سپرنٹنڈنٹ وہاں سے چلتے بنے۔ وکیل نے بتایا کے وہ اور دوسرے قیدی جب چمیل کے پاس پہنچے تو اس کی موت ہوچکی تھی۔ پاکستان کی جیسی عادت ہے اس نے چمیل کی موت کی ایک اور کہا نی سنادی۔ کوٹ لکھپت جیل کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ اشتیاق احمد کا کہنا ہے کہ 15 جنوری کو ناشتہ کرتے وقت چمیل کے سینے میں درد ہوا تھا۔ انہیں فوراً ایک سرکاری ہسپتال لے جایا گیا۔ ہم انہیں جناح ہسپتال لے گئے لیکن وہاں ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قراردے دیا۔ ڈاکٹروں کے مطابق چمیل کو دل کا دورہ پڑا تھا۔ بہرحال تمام الزامات اور میڈیا رپورٹ کی وجہ سے جیل حکام نے جوڈیشیل جانچ حکم دیا ہے۔ جوڈیشیل مجسٹریٹ افضل عباس نے ان 14 ہندوستانی قیدیوں کے بیان درج کئے جو چمیل کی بیرک میں ہی بند تھے۔جناح ہسپتال میں فورنسک محکمے کے افسر سید مدثر حسین نے کہا چمیل کی لاش کا ابھی پوسٹ مارٹم نہیں ہوا ہے۔ کوٹ لکھپت جیل کے ریکارڈ کے مطابق چمیل کو 2010 ء میں سیالکوٹ بارڈر کے پاس پکڑا گیا تھا۔ انہیں پچھلے سال جون میں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں منتقل کیا گیا تھا۔ سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ چمیل سنگھ کی سزا 2015 میں پوری ہونے والی تھی۔ کوٹ لکھپت جیل میں اس وقت33 ہندوستانی قیدی بند ہیں۔ ایک بار پھر پاکستان بے نقاب ہوا ہے۔ انہیں بھارتیہ فوجیوں سے انسانی برتاؤ کرنا آتا ہے نہ ہی ان کی جیلوں میں بند ہندوستانیوں کی سلامتی کی کوئی فکر ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟