موہن بھاگوت کے نتیش پریم کے پیچھے کیا حکمت عملی ہے؟


بھاجپا لیڈرشپ والی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) میں مجوزہ وزیر اعظم کے عہدے کے امیدواروں کو لیکر مچا گھمسان رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ مودی بنام نتیش لڑائی کھل کر سامنے آچکی ہے۔ نتیش کی نریندر مودی کی مخالفت کو لیکر اب بھاجپا لیڈروں میں بھی ناراضگی پیدا ہونے لگی ہے۔ سابق مرکزی وزیر اور سینئر لیڈر یشونت سنہا نے پٹنہ میں ہی نتیش کا نام لئے بغیر نشانہ قائم کرتے ہوئے کہا کہ ذات پات کی سیاست کرنے والے لوگ سیکولر ازم کے علمبردار نہیں ہوسکتے۔ان سب کے درمیان آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے اچھے انتظامیہ میں بہار کو گجرات سے بڑھیا بتا کر ایک نیا تنازعہ کھڑا کردیا ہے۔ بھاگوت نے نئی دہلی میں بیرونی میڈیا کے کچھ صحافیوں سے بات چیت میں عمدہ انتظامیہ والی ریاستوں کی گنتی گنائی تو اس میں سب سے پہلے بہار کا نام لیا۔ بہار ترقی کے معاملوں میں گجرات سے بھی اچھا کام کررہا ہے۔ بہار کے بعد انہوں نے گجرات،مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ اور مہاراشٹر کا نام لیا۔ موہن بھاگوت کی رائے سامنے آتے ہی پہلے کی طرح ان کے اس بیان پر لیپا پوتی شروع ہوگئی ہے۔کچھ عرصے پہلے انہوں نے یہ کہہ کر بھاجپا ۔ جنتادل (یو ) کے درمیان یہ کہہ کر تلخی بڑھا دی تھی کہ بھارت کی باگ ڈور کسی ہندوتو وادی نیتا کے ہاتھ میں کیوں نہیں ہونی چاہئے؟ انہوں نے یہ بیان نتیش کمار کی اس رائے پردیا تھا کہ کوئی سیکولر لیڈر وزیر اعظم ہونا چاہئے۔ موہن بھاگوت کے تازہ بیان پر سیاسی ہلچل مچتے ہی سنگھ صفائی دینے لگ گیا ہے۔ انہوں نے بہار میں نتیش کمار کی سرکار کو گجرات کے نریندر مودی کی حکومت سے زیادہ نمبر نہیں دئے اور سنگھ کے لیڈر رام مادھو نے اسے میڈیا کے سر تھوپتے ہوئے کہا بھاگوت کے بیان کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا۔ آر ایس ایس بغیر سوچے سمجھے بیان نہیں دیتا۔ شری بھاگوت کے اس بیان کے پیچھے بھی کوئی حکمت عملی ہوگی۔ یہ ممکن ہے موہن بھاگوت نے ایسا بیان نتیش کمار کو خاموش کرنے کے لئے دیا ہو۔ موہن بھاگوت نے بہار میں سنگھ پرچارک کے عہدے پر تقریباً دس سال کام کیا ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ اب جب لوک سبھا چناؤ میں دو سال سے بھی کم کا وقفہ رہ گیا ہے بھاجپا اور این ڈی اے کی سب سے بڑی اتحادی جماعت جنتا دل(یو) میں دراڑ بڑھے، اس سے کانگریس کو فائدہ ہوگا ۔ موہن بھاگوت نے اس بیان سے نتیش کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ این ڈی اے کے اہم لیڈر ہیں اور این ڈی اے میں اب کسی طرح کا بکھراؤ نہیں ہونا چاہئے۔ موہن بھاگوت کے اس بیان پر اس لئے بھی شبہ ہوتا ہے کیونکہ سنگھ فیصلہ کرچکی ہے کہ نریندر مودی2014ء میں بھاجپا کے وزیر اعظم کے امیدوار ہوں گے۔نتیش کی تعریف کرنا تھوڑا مضحکہ خیز لگتا ہے۔ دلچسپ یہ بھی ہے کہ بہار کے بھاجپا لیڈر سنگھ کے چیف کے تجزیئے کو صحیح بتانے میں جٹ گئے ہیں۔ بہار بھاجپا کے پردیش پردھان سی پی ٹھاکر کا کہنا ہے بھاگوت کا تجزیہ ٹھیک ہے۔ بہار میں سبھی سیکٹر میں ترقیاتی کام ہورہے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ گجرات میں ترقی نہیں ہورہی ہے، وہاں بھی ہورہی ہے لیکن اگر بھاگوت بہار کی بہتر انتظامیہ کو نمبرایک دے رہے ہیں تو یہ لائق خیر مقدم ہے۔ موہن بھاگوت کے بیان کو اس لئے نتیش کو منانے کی کوشش کی شکل میں بھی دیکھا جارہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟