کورٹ فیس میں 10 گنا اضافے کا تغلقی فرمان


دہلی حکومت کی جانب سے ہٹلری فرمان کے دہلی کی عدالتوں میں جوڈیشری فیس 10 گنا اضافہ کیا جارہا ہے، کی سبھی سطحوں پر جم کر مخالفت ہورہی ہے۔قومی راجدھانی کی 6 ضلع عدالتوں میں وکیلوں نے منگل سے بھوک ہڑتال شروع کررکھی ہے۔ آل انڈیا بار ایسوسی ایشن کی تال میل کونسل نے یہ کہتے ہوئے بھوک ہڑتال شروع کی ہے کہ جوڈیشری فیس میں دس گنا اضافہ نامناسب ہے کیونکہ اس سے مقدمہ ڈالنے والے بری طرح سے متاثر ہوں گے۔ ایسوسی ایشن کے صدر راجیو جے نے بتایا کہ وکیل دہلی سرکار کے عدالتی فیس بڑھانے کے فیصلے کو واپس لینے کے لئے دباؤ کی خاطر بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں۔ دہلی سرکار نے کیبنٹ اور دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر سے ملاقات کے بعدیکم اگست سے دہلی میں بڑھی کورٹ فیس لاگو کردی ہے۔ سرکار کا کہنا ہے کہ نئی شرحیں ہائی کورٹ کے احکامات کے مطابق ہیں۔ سرکار کا یہ بھی کہنا ہے راجدھانی میں 55 سال کے بعد کورٹ فیس میں اضافہ کیا گیا ہے اور اس کے لاگو ہونے سے دیگر شہروں میں بھی نافذ کورٹ فیس کے برابر ہوگئی ہے۔ وزیراعلی شیلا دیکشت نے وکیلوں کی ہڑتال پررائے زنی کرتے ہوئے کہا کہ عدالت فیس کو مختلف عدالتی تقاضوں کی بنیاد پر ترمیم کی گئی ہے تاکہ انہیں پریکٹیکل بنایا جاسکے۔ اس ترمیم کا مقصد سرکار کے خزانے کو بھرنا نہیں ہے بلکہ سرکار کے ذریعے کورٹ فیس (ترمیم ) قانون 2012ء پر ہائیکورٹ نے روک لگا دی ہے۔ عدالت نے سرکار سے کہا ہے کہ اس بارے میں وکیل تنظیموں سے بات کر کے دو ہفتے کے اندر پیدا تعطل کو ختم کیا جائے۔ بنچ نے یہ بھی حکم دیا کہ اس عرضی کی سماعت کے دوران جس میں دہلی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اسے خارج کرنے کی مانگ کرتے ہوئے اس ترمیم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے سرکار کے دائرہ اختیار کو چنوتی دی تھی۔ عرضی میں کہا گیا تھا کہ سرکار کا یہ قدم عوام مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ ریاست کی فلاحی بہبودی کے مقصد کے خلاف بھی ہے۔ نگراں چیف جسٹس اے کے سیکڑی کی سربراہی والی ڈویژن بنچ نے کہا کہ تنازعے کے پیش نظر دہلی سرکار اس مسئلے کا حل ہفتے کے اندر نکالے۔ سماعت کے دوران ایڈیشنل سالیسٹر جنرل اور ڈی ایس سی بی اے کے صدر اے ایس چڑیموک نے کہا کہ وہ یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ سرکار کا یہ فیصلہ آئینی تقاضوں کے مطابق نہیں ہے۔ حالانکہ عدالت نے دہلی سرکار کے سرکاری وکیل نجمی وزیری کی اس دلیل پر اتفاق ظاہر کیا سرکار کی آئین سازیہ اختیار کو چنوتی نہیں دی جاسکتی۔ کورٹ فیس میں بے تحاشہ اضافے کو ایک فلاحی ریاست کے ان مقاصد کے خلاف بتایا گیا جس میں عام جنتا کو سستا انصاف دلانے کی بات کہی جاتی ہے۔ عرضی میں دلیل دی گئی ہے کہ سرکار کا مقصد صرف محصول اکٹھا کرنا نہیں ہوتا اور اس طرح سے انصاف کو بیچنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ ہائی کورٹ کے فیصلے سے صاف ہے کہ کورٹ فیس تقریباً دس گنا بڑھانے کا دہلی سرکار کا فیصلہ صحیح نہیں ہے۔مثال کے طور پر 26 لاکھ روپے کے باؤنس چیک کا کیس کورٹ میں لڑنے کے لئے 1 لاکھ سے زیادہ کی فیس دینی پڑے گی۔ 50 لاکھ کی وصیت پر 2 لاکھ روپے کورٹ فیس ہوگی۔ ضمانت کی عرضی داخل کرنے کے لئے سوا روپے کے پیپر کی جگہ 50 روپے سیشن کورٹ میں 100 روپے اور ہائی کورٹ میں 250 روپے کا اب اسٹامپ پیپر لگے گا۔دہلی سرکار کے ذریعے کورٹ فیس میں اضافہ سے وکیلوں کو تو کم غریبوں کو انصاف کے لئے قانونی لڑائی لڑنا مشکل ہوجائے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟