آسام میں تشدد کے پیچھے کہیں غیر ملکی سازش تو نہیں؟


آسام میں تشدد کے واقعات کے درمیان منموہن سرکار نے سپریم کورٹ کو مطلع کیا ہے کہ مذہب اور زبان کی بنیاد پر ریاست کی ووٹر لسٹوں سے 40 لاکھ ووٹروں کے نام ہٹانا ممکن نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنا غیر آئینی ہوگا۔ مرکزی حکومت نے ووٹر لسٹ میں 40 لاکھ بنگلہ دیشی دراندازوں کے نام شامل ہونے سے متعلق ایک غیر سرکاری تنظیم آسام پبلک ورکرس کے الزامات کو مسترد کردیا ہے ۔یہ تنظیم چاہتی ہے کہ مشتبہ ووٹروں کے نام ووٹر لسٹ سے کاٹے جائیں اور انہیں فوراً واپس بھیجا جائے۔ آسام میں جو بات مرکز کی یوپی اے سرکار اور آسام میں ترون گگوئی سرکار کو قابل قبول نہیں وہ ہے ووٹوں کی سیاست ۔ یہ 40 لاکھ ناجائز بنگلہ دیشیوں کے ووٹوں پر ہی گگوئی سرکار ٹکی ہوئی ہے۔ آسام اور بنگلہ دیش کے درمیان 270کلو میٹر لمبی سرحد میں سے قریب50 کلومیٹر لمبی کھلی سرحد ہے۔ یہیں سے ناجائز گھس پیٹھ ہورہی ہے۔ طویل عرصے سے ان ناجائز گھس پیٹھیوں کی وجہ سے مقامی آبادی کا تناسب بگڑ رہا ہے۔ اس میں کل آبادی بنیادی آسامی لوگوں کی فیصد مسلسل کم ہورہا ہے۔ آسام میں معاملہ آسامی بنام بنگلہ دیشیوں کا نہیں اور نہ سوال ہندو بنام مسلم ہے ۔ اصل اشو ہے بھارتیہ بنام غیر ملکی۔ 1985ء میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کے عہد میں آسام سمجھوتہ ہوا تھا جس میں بنگلہ دیشی گھس پیٹھیوں کی پہچان کرکے انہیں واپس بھیجنے کی بات کہی گئی تھی اس سمجھوتے کے تقاضوں کو کبھی بھی سنجیدگی سے لاگو نہیں کیا گیا۔ آسام سرکار پر دباؤ بنانے کے لئے بھی مقامی آسامیوں نے یہ تحریک چھیڑ رکھی ہے۔ آج وہ اپنے گھروں سے باہر نکال دئے گئے ہیں اور شرنارتھی بن کر اپنے دیش میں کیمپوں میں ہی رہنے کو مجبور ہیں۔ ترون گگوئی سرکار نے وقت رہتے احتیاطی قدم فوری طور پر نہیں اٹھائے۔ اگر تشدد شروع ہوتے ہیں وہ قانون و نظام کو بنائے رکھنے کے لئے مناسب فورس تعینات کرتے تو شاید اتنے بڑے پیمانے پر دنگا نہ ہوتا۔ اس وقت بھی شرنارتھی کیمپوں میں 3 لاکھ60 ہزار لوگ رہ رہے ہیں۔ تشدد میں 73 لوگ مارے جاچکے ہیں اور لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔ آسام میں20 جولائی سے شروع ہوئے فرقہ وارانہ فساد کے پیچھے نارتھ ایسٹ میں سرگرم پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا ہاتھ ہونے کی بات سامنے آرہی ہے۔ سکیورٹی ایجنسیوں نے ایک رپورٹ وزارت داخلہ کو بھیجی ہے اس میں کہا گیا ہے تشدد کے پیچھے مقصد آسام ، مغربی بنگال و بہار کے کچھ ضلعوں کو ملا کر گریٹر بنگلہ دیش بنانا ہے۔ ذرائع کے مطابق 1979ء میں اس سازش کو جنم دیا گیا۔ اس میں جمعیت المجاہدین، خلت مجلس، اسلامی لبریشن ٹائیگر، حرکت المجاہدین، مسلم ایکشن فورس، صدام واہنی اور اہل سنت وغیرہ وغیرہ تنظیموں نے 1992ء سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ اس کے بعد آسام کے سرحدی علاقوں میں مسلسل تشدد بڑھ رہا ہے۔ ان تنظیموں کے 300 سے زیادہ سلیپر سیل ریاست میں سرگرم ہیں۔ اس میں صرف ایک مخصوص ذات نہیں بلکہ سبھی ذاتوں کے لڑکوں کو ٹریننگ دی گئی ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد پھیلانے کیلئے 40 سے30 سال کی عمر کے لڑکوں کے پینل تیار کئے گئے ہیں۔ ٹریننگ کے دوران ان کا میانمار، بنگلہ دیش کے ہنگاڑی ،کھاگڑا چاری و جینا گھاٹی سے مسلسل رابطہ رہتا ہے۔ انہیں آسام، تریپورہ، میگھالیہ و میزوم کی سرحدوں سے داخلہ دلایا جاتا ہے۔ آسام میں جاری تشدد کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ ہونے کا پختہ امکان بھی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟