کشواہا کی گرفتاری کیا کانگریس کی حکمت عملی کا حصہ ہے؟



Published On 6 March 2012
انل نریندر
اترپردیش چناؤ کے آخری مرحلے کی پولنگ کے آخری بٹن دبنے کے ساتھ ہی سی بی آئی نے این آر ایچ ایم گھوٹاے میں ملزم سابق وزیر بابو سنگھ کشواہا کوگرفتار کرنے کے وقت کو لیکر ضرور حیرانی ہوئی ہے۔ سی بی آئی اور کانگریس کی یہ حکمت عملی کسیبھی شخص کی سجھ سے پرے ہے۔ یہ گرفتاری محض جانچ کی کارروائی کا حصہ ہے۔ کشواہا کے ساتھ ہی بسپا کے ودھان پریشد کے ممبر رام پرساد جیسوال بھی اسی گھوٹالے میں گرفتار کرلئے گئے ہیں۔ دونوں کو پوچھ تاچھ کے لئے سی بی آئی دہلی ہیڈ کوارٹر میں بلایا اور قریب چار گھنٹے تک گہری پوچھ تاچھ کے بعد جب افسران نے انہیں گرفتار ہونے کی خبر دی تو کشواہا کے چہرے پر مایوسی دوڑ گئی۔ کشواہا کی گرفتاری سے لگتا ہے کانگریس کے اقتدار سنگرام کا نیا حصہ ہے۔ سیدھے سیدھے کہیں تو مایاوتی کے لئے یہ ایک بڑا اشارہ ہے۔ انہیں خوش کرنے کی کوشش بھی اور نتیجے کے نمبر گڑبڑانے کا ہتھیار بھی۔گرفتاری کو اسی انداز میں دیکھا جانا چاہئے اور اسی طرح ہی پوری چناؤ مہم میں کانگریس نے جس طرح پھوکے پھوکے پاؤں چلے اس کے نیتا ریزرویشن کا جھنجھنا دکھا کر مسلمانوں کو آزماتے رہے۔ چناؤ کمیشن تک کو نظر انداز کرتے رہے، تہائی اکثریت کے دعوؤں کے درمیان صدر راج کا خوف دکھاتے رہے۔ کشواہا کی گرفتاری اسی کڑی کا حصہ ہے اور ویسا ہی یہ داؤ ہے۔ بسپا کے لئے ساتھ آنے کی درپردہ دعوت بھی لیکن اس وارننگ کے ساتھ ان کا مہرہ انہی کے خلاف چل سکتا ہے۔ دیش کی سیاست کی سب سے بڑی اہم ریاست اترپردیش کا تاج ہتھیانے کیلئے کانگریس کی کوئی بھی نیت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ ہر طرح کا متبادل کھلا رکھنا چاہتی ہے۔ دو کشتیوں میں سوار ہوکر چلنے سے بھی اسے کوئی پرہیز نہیں۔ سپا کو انگوٹھا دکھا کر کانگریس کا دامن تھامنے والے دل بدلو سماج وادیوں کا طاقتور طبقہ کسی بھی قیمت پر ملائم سنگھ یادو کے ساتھ دوستی نہیں ہونے دینا چاہتا۔ انہیں مایاوتی کو ساتھ لینے میں کوئی پریشانی نہیں نظر آتی۔ کانگریس کی جانب سے وزیر اعظم کے خودساختہ دعویدار بینی پرساد ورما اس کی اپنی طرف سے پیشکش کرچکے ہیں۔ اپنے پرانے ساتھی ملائم کو آڑے ہاتھوں لینے کا وہ کوئی موقعہ نہیں چھوڑتے لیکن حال ہی میں چونکایا مایاوتی کی تعریف کرکے۔ ساتھ ہی آف دی ریکارڈ یہ بھی کہا چناؤ کے بعد سونیا مایاوتی کو بھی چائے پر بلا سکتی ہیں۔ کانگریس صدر سونیا گاندھی کو پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ میں سب سے زیادہ بے صبری یوپی کے نتیجوں سے ہے۔ جہاں پنجاب، اتراکھنڈ ، منی پور اور گووا کو لیکر کانگریس ہیڈ کوارٹر آرہی اطلاعات میں بہت زیادہ فرق نہیں دکھائی دے رہا ہے وہیں اترپردیش کے نتیجوں کو لیکر کانگریس کے اندر بھاری اختلافات ہیں۔ سونیا کے سپہ سالار جو انہیں بتا رہے ہیں اور راہل گاندھی کے سپاہی جو دعوی کررہے ہیں دونوں کے نمبروں میں خاصا فرق ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا کہ راہل گاندھی نے یوپی چناؤ میں بہت محنت کی ہے۔ 200 سے زیادہ ریلیاں روڈ شو کرنا آسان نہیں تھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ راہل خیمے کا ماننا ہے کانگریس کی سیٹیں بڑھیں گی اور یہ بڑھت 50 سے70 تک ہوسکتی ہے۔ پارٹی کے زیادہ تر لیڈروں اور مرکزی وزراء کی بھی یہ ہی رائے ہے۔ کچھ مایوس کانگریسی اور ایم پی تو پارٹی کو محض 30سے35 سیٹیں ہی دے رہے ہیں۔ راہل خیمے میں ایسے بھی نیتا ہیں جو کہہ رہے ہیں کانگریس اپنی سیٹیں کم سے کم 125 تک پہنچا سکتی ہے۔ دگوجے سنگھ تو کانگریس کی کم سے کم 125 سیٹیں آنے کی شرط لگانے کو بھی تیار ہیں۔وہ کہہ سکتے ہیں کہ اس بارانتخابار میں 15 سے20 فیصدی مزید پولنگ ہوئی ہے۔ اس کا کم سے کم 80 فیصدی سے زیادہ کانگریس کو ملا ہے اور یہ ووٹر راہل گاندھی کی جارحانہ چناؤ مہم اور لوگوں کے درمیان ان کے بھروسے اور ترقی کے ایجنڈے پر ہوئی ہے۔ دگوجے سنگھ بھی یہ کہتے ہیں کہ اس بار یوپی کا ووٹر خاموش رہا ہے کیونکہ اس کے ارد گرد سپا۔ بسپا کے حمایتیوں کا دبدبہ ہے اس لئے اس نے چناؤ میں چپ چاپ پولنگ کی ہے جو نتیجوں کی شکل میں سامنے آئے گا۔ خیر نتیجوں کے لئے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ جلد دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ آخر میں ہم چناؤ کمیشن اور ووٹروں کو مبارکباد دینا چاہتے ہیں کہ پانچ ریاستوں اور ڈھائی مہینے طویل چناوی عمل کے دوران بغیر بوتھ پر قبضے اور تشدد یا کسی گڑ بڑی سے پاک چناؤ پر امن طریقے سے مکمل ہوگیا۔ سب سے بڑی بات یہ رہی کہ بغیر کسی اشتعال یا کشیدہ ماحول کے سبھی ریاستوں میں ووٹروں نے ریکارڈ پولنگ کی۔ لوگوں نے پولنگ بوتھوں پر جاکر جمہوریت کے اس مہا پروو کے تئیں نہ صرف اپنی عقیدت جتائی بلکہ چناؤ کو بہت دلچسپ بھی بنا دیا۔
Anil Narendra, Babu Singh Kushwaha, Bahujan Samaj Party, BJP, CBI, Daily Pratap, NRHM, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟