چارج شیٹ داخل کرنے میں 17 برس تو فیصلہ آنے میں کتنے برس؟



Published On 4 March 2012
انل نریندر
مشہور چارہ گھوٹالے میں سی بی آئی نے جمعرات کے روز آخر کار عدالت میں ایک چارج شیٹ داخل کردی ہے۔ اس میں سابق وزیر اعلی لالو پرساد یادو اور ایک دوسرے سابق وزیر اعلی جگناتھ مشر ملزم بنائے گئے ہیں۔ یہ چارج شیٹ 1994-96 ء کے درمیان 46 لاکھ روپے کے گھوٹالے کو لیکر ہے۔ ایک موجودہ ایم پی اور ایک سابق ایم پی بھی اس میں ملزم ہے۔ یہ چارج شیٹ بتاتی ہے طاقتور لوگوں کے کرپشن کی جانچ کی رفتار کتنی دھیمی کی جاسکتی ہے۔ اس چارج شیٹ کو داخل کرنے میں ہی تقریباً 17-18 برس لگ گئے تو مقدمہ چلے اور فیصلہ آنے میں کتنا وقت لگے گا آپ خود ہی طے کرلیں۔ اور جب پھر فیصلہ آئے گا تو بڑی عدالتوں میں چیلنج ہوگا اور آخری فیصلہ آتے آتے ایک دور گذر جائے گا۔ کرپشن کے معاموں میں اس لئے ملزمان کو سزا سے ڈر نہیں لگتا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آخری فیصلہ آتے آتے عمر ہی گذر جائے گی۔ محکمہ پشوپالن میں پیسے کی گڑ بڑی کا پہلا اندیشہ سی اے جی نے 1985ء میں ظاہر کیا تھا۔ شروع میں یہ گھوٹالہ بڑا نہیں تھا اور اس میں زیادہ لوگ شامل نہیں تھے۔ اگر شروع میں ہی اس پر روک لگ جاتی تو اس کا اتنا بڑا پھیلاؤ نہ ہوتا۔ اس گھوٹالے کو لیکر وارننگ آتی رہی ہیں لیکن انہیں نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ بہار میں ایک بعد دوسرے وزیر اعلی آتے رہے ہیں اور گھوٹالہ بڑا ہوتا گیا۔ یہ مانا گیا ہے کہ 1995-96 ء تک اس گھوٹالے میں تقریباً10 ارب روپے کی ہیرا پھیری ہوچکی تھی۔ اس کے بعد بھی جانچ کو روکنے کی پوری کوشش کی گئی لیکن پٹنہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی مداخلت سے یہ معاملہ سی بی آئی کو سونپا گیا اور جانچ رک رک کر ہی صحیح لیکن جاری رہی جو کافی حد تک سیاسی تبدیلی سے وابستہ رہی۔ آزاد ہندوستان میں کرپشن کو روکنے میں کیا کیا رکاوٹیں آتی ہیں اس کی ایک تازہ مثال ہے یہ چارہ کانڈ۔ چارہ گھوٹالے کے دوران وزیر اعلی لالو پرساد یادو کو گھپلے کی جانکاریاں مل رہی تھیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے بروقت اسے روکنے میں کوئی کارگر قدم نہیں اٹھایا۔ یہاں تک کے دوسروں کو بھی نہیں اٹھانے دیا۔ ان کے عہد میں ایک ہی دن میں 51 لاکھ روپے سے زیادہ کی ناجائز نکاسی گھوٹالے بازوں نے کی تھی جبکہ جائز نکاسی 1 لاکھ روپے تک کی کرنے کی اجازت تھی۔ اس ناجائز پیسہ نکاسی کے کروڑوں روپے سے بڑے بڑے سیاستدانوں اور افسروں کی ہوائی سہولت، ہوٹل خرچ سمیت دیگر خرچوں کو اٹھایا جاتا تھا۔ گھوٹالوں سے وابستہ سی اے جی رپورٹ دسمبر 1993 میں ملنے کے بعد کسی طرح کی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ جارکھنڈ کیڈر کے آئی اے ایس افسر امت کھرے نے محکمہ پشو پالن میں کی گئی اقتصادی گڑ بڑیوں کو پکڑا تھا اس وقت وہ چائی باسا کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ انہوں نے اس معاملے میں اعلی سطحی جانچ کی سفارش سرکار سے کی تھی۔اس معاملے میں وسیع پیمانے پر جعلی سازی کی گئی۔ سرکار کے محکمہ پشو پالن میں گائے بھیس دھونے یا چارہ لانے والی جن گاڑیوں کے نمبر درج کئے جانچ میں وہ اسکوٹر ،موٹر سائیکل نکلیں۔ ساتھ ہی بڑے پیمانے پر فرضی سپلائی دکھائی گئی۔ قریب 900 کروڑ روپے کے اس گھوٹالے میں سی بی آئی اب تک 350 کروڑ روپے کی املاک ضبط کر چکی ہے۔ زیادہ تر برآمدگی زیورات اور منقولہ غیر منقولہ املاک کے ذریعے سے کی گئی۔ سی بی آئی کو امید ہے کہ یہ برآمدگی قریب 500 کروڑ روپے تک جا سکتی ہے۔ سی بی آئی کا خیال ہے کہ قریب-400 350 کروڑ روپے عیش و آرام میں پھونکے جا چکے تھے۔ اس کا جائزہ اس کی برآمدگی کی شکل میں ممکن نہیں ہے۔ حالانکہ لالو جی اس کانڈ کے پانچ معاملوں میں 244 دن جیل میں رہ چکے ہیں لیکن ان کی مصیبتیں ختم نہیں ہوئیں۔ لالو پرساد یادو سے وابستہ ایک اور دیگر معاملے میں دو مہینے کے اندر رانچی کی ایک عدالت میں فیصلہ آنا ہے۔ عدالت میں لالو سمیت سبھی ملزمان کے بیان درج کرنے کا کام شروع ہوچکا ہے اب صرف بحث باقی ہے۔جگناتھ مشرا اب سیاست سے ریٹائرڈ ہو چکے ہیں اور لالو پرساد یادو کا دور گذر چکا ہے نہ تو وہ بہار میں اور نہ ہی مرکز میں اب ان کی زیادہ اہمیت نہیں ہے اور اس بات کا امکان کم ہی لگتا ہے کہ مستقبل میں ان کا سیاسی قد اونچا ہو پائے گا جتنا وہ پہلے تھے۔ اسی وجہ سے لالو کی سیاست مسلسل کمزور ہوتی گئی اور وہ بدلے زمانے کی آہٹ کو نہیں پہچان پائے۔ شاید لالو پرساد یادو کے خلاف معاملے کے نپٹارے میں اب تیزی آئے، کیونکہ ان کا سیاسی رسوخ گھٹا ہے لیکن ضرورت اس بات کی زیادہ ہے کہ دیش میں کرپشن کو روکنے کے لئے موثر قدم اٹھائے جائیں۔
Anil Narendra, Bihar, CBI, Daily Pratap, Fodder Scam, Lalu Prasad Yadav, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟