پاک۔ امریکہ کے اس تنازعے میں آخرکار امریکہ کو ہی جھکنا پڑے گا


Published On 2nd December 2011
انل نریندر
پاکستان اور امریکہ کے آپسی رشتے بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ تازہ ٹکراؤ نیٹو کے فوجیوں کے ذریعے پاکستان کے قبائلی علاقے میں واقع دوچوکیوں پر 26 نومبر کو صبح سویرے کئے گئے ہوائی حملے کو لیکر ہے۔ اس میں 28 پاکستانی فوجیوں کی موت ہوگئی تھی۔ دراصل پاکستان کو سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ امریکہ اس کی سرزمین میں گھس کر اس پر حملہ کرتا ہے۔ اب تک تو دہشت گردی کے ٹھکانوں یا انتہا پسندوں پر پاکستان میں گھس کر حملے ہوتے تھے لیکن اب یہ پہلا موقعہ ہے کہ امریکہ نے نیٹو کے ذریعے سے پاکستانی فوج کو نشانہ بنایا ہے۔ اسامہ بن لادن کو بھی پاکستان کے اندر گھس کر ایبٹ آباد میں ٹھکانے لگایا گیا تھا۔ اسی حملے کے بعد سے دونوں ملکوں کے رشتے بگڑتے چلے گئے۔ اب تو حد ہوگئی۔ پاکستان نے اقوام متحدہ سے ناٹو کے ہوائی حملے پراپنا احتجاج درج کرانے اور مذمت کرنے کے لئے باقاعدہ طور سے رابطہ قائم کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر عبداللہ حسین ہارون نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بانکی مون کو ایک خط لکھ کر مطلع کیا ہے کہ 26 نومبر کو ناٹو کے ذریعے پاکستان کی سرحدی چوکیوں پر کئے گئے حملے کی وجہ سے اس کے 28 فوجی اور ایک افسر شہید ہوگئے۔ 13 فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ ہارون نے سکریٹری جنرل کو پاکستان کیبنٹ کی ڈیفنس کمیٹی کے ذریعے جاری بیان کو بھی بھیجا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے پاک اس حملے کی سخت مذمت کرتا ہے اور اسے پاکستان کی اپنی سرداری کی خلاف ورزی مانتا ہے۔ پاکستان حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ جرمنی کے بان شہر میں آئندہ5 دسمبر کو ہونے والی ایک اہم چوٹی کانفرنس کا بائیکاٹ کرے گا۔ پاکستانی فوج نے ناٹو کے حملے پر سخت ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ بغیر کسی اکساوے کے ہوا۔ جو ناٹو کی جارحیت کو ظاہر کرتا ہے۔ سینئر فوجی افسر میجر جنرل اشفاق ندیم نے راولپنڈی میں واقع فوجی ہیڈ کوارٹر میں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا پاک۔ افغان سرحد پر پاک فوجیوں کی چوکیوں کی پوری جانکاری ناٹو فوج کو دی گئی تھی اور نقشے کے ذریعے سے بھی سمجھا گیا تھا۔ وہیں جنرل ندیم نے کہا جس حلقے میں ناٹو جہازوں نے حملہ کیا پاک فوج نے پہلے ہی اس کو کٹر پسندوں سے آزاد کرا لیا تھا اور وہاں سے کٹر پسندوں کی کوئی دراندازی نہیں ہورہی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے ناٹو فوج 2008-09 میں اور 2011 ء میں حملے کئے تھے جس میں14 فوجی مارے گئے تھے 13 زخمی ہوئے تھے۔ اس وقت جانچ کا علان کیا گیا تھا لیکن جانچ آج تک پوری نہیں ہوئی۔ کیبنٹ کی ڈیفنس کمیٹی کی میٹنگ کے بعد پاکستان حکومت نے کہا کہ امریکہ کو شمسی ہوائی اڈے کو15 دن کے اندر یعنی11 دسمبر تک خالی کرنا ہوگا۔ کیونکہ امریکہ یہاں سے ڈرون حملے کرتا ہے۔ امریکہ کی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے پاکستان سے کہا کہ وہ افغانستان کے مستقبل پر غور و خوض کرنے کے لئے بان کانفرنس میں حصہ نہ لینے کے اپنے فیصلے پر دوبارہ سے غور کرے۔ یہ ہی بات افغان صدر حامد کرزئی نے بھی کہی ہے۔ پاکستان کے بنے نئے ہمدرد چین نے بھی پیر کو کہا کہ پاکستان کی سرحدی چوکیوں پر ناٹو حملے سے اسے گہرا دھکا لگا ہے۔ چین نے ناٹو سے کہا کہ وہ پاکستان کی سرداری کا احترام کرے ساتھ ہی اس نے واقعہ کی جانچ کی بھی مانگ کی ہے۔
پورے معاملے میں پاکستان کا پلڑا بھاری ہے۔ افغانستان میں اس وقت ناٹوکے سوا لاکھ سے بھی زیادہ فوجیوں کے لئے فوجی سازو سامان اور پیٹرول کی سپلائی پاکستان سے ہی ہوتی ہے۔ اسے روکے جانے سے امریکہ کے لئے بھاری مشکلیں پیدا ہوں گی۔ پاکستان کا سپلائی راستہ امریکہ کے لئے کئی برسوں سے درد سر بنا ہوا ہے۔ کیونکہ اکثر اس راستے سے جانے والے ٹرکوں کو طالبان لڑاکے جلا دیتے ہیں۔ اب تک پاکستانی فوج کی سرپرستی میں کراچی بندرگاہ سے ہوکر ہتھیاروں اور پیٹرول لے جانے والے ان ٹرکوں کا کابل تک پہنچنا ممکن ہوپاتا تھا لیکن اب پاکستانی فوج نے اگر سکیورٹی ہٹا لی تو امریکہ کے لئے افغانستان اپنے فوجی سازو سامان پہنچانا مشکل ہوجائے گا اس لئے ہر حال میں امریکہ کو افغانستان میں اپنے فوجی سازو سامان بھیجنے کے لئے پاکستان پر منحصر رہنا پڑا۔ اب اسے دباؤ کہیں یا بلیک میلنگ۔
پاکستان کا پلڑا بھاری ہے اور آخر کار امریکہ کو پاکستان کو پٹانے کے لئے کوئی راستہ نکالنا ہوگا۔ ہاں ایک اور متبادل یہ بھی ہے امریکہ پاکستان پر بھی جنگ کا اعلان کردے۔ اس صورت میں پورے خطے میں کشیدگی پیدا ہوجائے گی۔ امریکہ کو یہ یاد رکھنا چاہئے پاکستان ایک نیوکلیائی خود کفیل ملک ہے اور اس کے لئے افغانستان میں نیٹو فوجی آسانی سے ٹارگیٹ ہیں۔ پھر امریکہ سے یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ وہ کسی دوسرے دیش کے اندر گھس کر حملہ کیسے کرسکتے ہیں؟ انہیں یہ حق کس نے دیا کہ جب چاہے کسی دیش کی سرداری کو طاق پر رکھ کر حملہ کردے؟ پاکستان کی وزیرخارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ یہ امریکہ کے ساتھ رشتوں کا جائزہ کرنے کا صحیح وقت ہے۔ انہوں نے کہا پاکستانی فوجی چوکیوں پر ہوئے ہوائی حملے بین الاقوامی قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ سے15 دنوں کے اندر شمسی ہوائی اڈہ خالی کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ کھر نے کہا کہ ہمیں مدد نہیں ہم وقار اور عزت کے ساتھ جینا چاہتے ہیں۔
Afghanistan, Al Qaida, America, Anil Narendra, China, Daily Pratap, Haqqani Network, Hina Rabbani Khar, Pakistan, USA, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟