میڈیکل پیشے میں اخلاقی اصولوں میں آئی گراوٹ


Published On 1st December 2011
انل نریندر
میری رائے میں جتنی اقدار میں گراوٹ میڈیکل پروفیشن میں آئی ہے شاید اتنا کسی اور پیشے میں نہیں دیکھنے کو ملی۔ آج پیسہ ہی کچھ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے لئے سب کچھ رہ گیا ہے۔ ایک وقت تھا جب انسانی خدمت کرنا ایک بہت بڑا ثواب کا کام مانا جاتا تھا اور بیمار کا علاج کرنا ہر ڈاکٹر اور ہسپتال کا فرض تھا۔ ان کے ہاتھوں میں شفاء بھی تبھی تھی۔ آج تو کچھ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے چکر میں ایک بار آدمی پھنس جائے تو اس کا تو علاج کراتے کراتے گھر بار سب کچھ بک سکتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب ہمارے پتا شری سورگیہ کے نریندرجی پچھلے برس بیمار ہوئے تھے تو انہیں ہم مشرقی دہلی کے ایک نامور پرائیویٹ ہسپتال میں اس لئے لے گئے تھے کہ نمونیا کی معمولی شکایت جلد دور ہوجائے گی اور وہ اچھی ،صاف ستھری جگہ میں صحت یاب ہوجائیں گے۔لیکن ان کی بیماری تو بڑھتی گئی اور محض 10 دنوں میں سارا کھیل ختم ہوگیا اور روزانہ بل 60 سے70 ہزار روپے بنتا چلا گیا۔ ایک بار جاکر ایسے پھنسے کہ نہ تو ہم انہیں کسی دوسرے ہسپتال میں لے جانے کی حالت میں تھے اور وہاں ان کے علاج کی بجائے بیماریاں بڑھتی جارہی تھیں۔آخر10 دن بعد انہوں نے اس ہسپتال میں اپنی آخری سانس لی۔ ہم گئے تو تھے ان کو صحت یاب کرانے کیلئے لیکن ان کے مرتے دم تک لاکھوں کا بل بن گیا۔ کرتے تو کیا کرتے؟ ایسے سینکڑوں معاملے روزانہ ہسپتالوں میں ہورہے ہیں۔ مریض اور ان کے رشتے دار ایسے پھنستے ہیں کہ انہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ کریں تو کیا کریں۔ ادھر کنواں تو ادھر کھائی۔ اگر آپ کے گھٹنے میں تکلیف ہو تو آپ ہڈیوں کے کسی ڈاکٹر کے پاس دکھانے جاتے ہیں تو وہ سیدھا آپ کو کہے گا آپ کا گھٹنا خراب ہوگیا ہے۔ آپ کی نی(گھٹنا) تبدیل ہوگا۔ بیشک اس وقت آپ کے گھٹنے کے بدلنے کی شاید ضرورت نہ ہواور وہ فزیوتھریپی اور دواؤں سے ٹھیک ہو سکتا ہو لیکن سرجن مہودے صرف پیسے بنانے کے لئے آپ کا گھٹنا بدلوادیں گے۔ آپریشن کے بعد اپنے طے شدہ فزیوتھراپسٹ کے پاس بھیج دیں گے اور آپ کی فیزیو تھریپی پانچ یا چھ مہینے چلے گی۔ فزیوتھریپی کی فیس میں سرجن کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ اگر آپ کو معمولی کھانسی ،زکام کی شکایت ہے آپ کسی ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو وہ آپ کو درجنوں ٹیسٹ لکھوادے گا۔ ان ٹیسٹوں کی بیشک ضرورت نہ ہو لیکن کیونکہ خون جانچ لیب میں ان کا کمیشن مقرر ہے اس لئے وہ زبردستی آپ کا دو تین ہزار روپے کا بل بنوا دے گا۔ آج کل پانچ ستارہ ، سیون اسٹار ہسپتال کھل گئے ہیں۔ یہاں ڈاکٹروں کو سالانہ پیکیج دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی ڈاکٹر ان ہسپتالوں سے وابستہ ہونا چاہے تو انہیں سالانہ پیکیج دیا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ شرط بھی ہوتی ہے کہ وہ ڈاکٹر سال کے اتنے مریض لائیں گے یعنی سال کا اس کے ذریعے سے جتنا بزنس ہوگا ۔آج میڈ یکل پیشہ پیسوں کادھندہ بن گیا ہے۔ جتنا مریض کو نچوڑ سکو نچوڑ لو۔
دہلی کی سڑکوں کے کنارے پھل، سبزیاں، کپڑے وغیرہ بکنا عام بات ہے۔ لیکن اگر فٹ پاتھ کے کنارے دانت بکتے نظر آجائیں تو چونکئے نہیں۔ دہلی کی کئی سڑکوں کے فٹ پاتھ پر ایسے ڈینٹسٹ بیٹھے مل جائیں گے جن کے پاس نہ تو کوئی ڈگری ہے اور نہ ہی سرٹیفکیٹ لیکن آپ کے دانتوں کا ہر طرح کا علاج کرنے کی گارنٹی لینے کو تیار ہیں۔ اتنا ہی نہیں یہ جھولا چھاپ ڈاکٹر آپ کے گھر آکر علاج کرنے کی بھی سہولت دیں گے۔ رستے کا مال سستے میں والی کہاوت بھی یہاں کھری اترتی ہے۔ مریضوں کی جان کو ڈھال بنا کر ان کے رشتہ داروں سے پیسہ اینٹھنے والے ایک ڈاکٹر پرشانت کمار کو دہلی کی ایک عدالت نے سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا جس طرح اس نے اپنی ڈاکٹری کے پیشے اور ان کی ذمہ داریوں کو طاق پر رکھ کر پیسہ کمانے کا نرالہ طریقہ اپنایا، اسے دیکھتے ہوئے وہ کسی طرح کی نرمی کے حقدار نہیں۔ حادثے میں شدید طور پر زخمی ہونے پر کیلاش چند کو علاج کے لئے ہسپتال میں بھرتی کرایا گیا تھا۔25 مئی 2004 کو ڈاکٹر پرشانت کمار نے کیلاش چند کے بیٹھے دویندر سے بہتر علاج کے لئے پانچ ہزار روپے کی رشوت مانگی تھی۔ اسی طرح سے ایک دوسرے شخص سنجیو بترا کو بھی ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ ڈاکٹر پرشانت نے سنجیو بترا کے بھائی مکیش بترا سے بھی تین ہزار روپے رشوت مانگی تھی۔ گواہ مکیش بترا نے عدالت کو بتایا کہ وہ دہلی ہائی کورٹ میں ملازمت کرتے ہیں۔ ان کے بھائی سنجیو بترا کا 18 مئی 2004ء کو حادثہ ہوا تھا۔ انہیں علاج کیلئے ٹروماسینٹر میں داخل کرایا گیا۔ 27 مئی 2004 ء کو ان کے بھائی کا آپریشن ہونا تھا۔ آپریشن سے پہلے ہی ڈاکٹر پرشانت ان سے آکر ملا اور 10 ہزار روپے کی رشوت مانگی۔ اینٹی کرپشن برانچ نے ڈاکٹر پرشانت کے خلاف بدعنوانی انسداد ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا۔ عدالت نے ڈاکٹر پرشانت کو قصوروار قراردیا ہے اور تہاڑ جیل بھیج دیا۔ سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس نے اپنے پیشے کا غلط استعمال کیا۔ مریض کا علاج کرنے کے لئے ایک ڈاکٹر نہ صرف سماجی بلکہ قانونی طور پر بھی پابند ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نے اپنی ذمہ داری کو ایمانداری سے نہیں پورا کیا۔ اب کتنے ڈاکٹر یہ دعوی کرسکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پروفیشن سے ایمانداری سے کام لیا۔
Anil Narendra, Apollo Hospital, Daily Pratap, Doctors, Medical Profession, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟