شرد پوار کو تھپڑآخر کیوں پڑا؟



Published On 27th November 2011
انل نریندر
جمعرات کو نئی دہلی کے این ڈی ایم سی سینٹر میں افکو کے ایک پروگرام میں بطور مہمان خصوصی آئے مرکزی وزیر زراعت نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ اس دن ان کے ساتھ کیا گذرنے والی ہے۔ پروگرام کے بعد اخبار نویسوں سے بات چیت کرنے کیلئے پوار جب باہر کی طرف نکلے تو تبھی ایک سکھ شخص نے آگے بڑھ کر ان کے گال پر طمانچہ جڑدیا۔ پوار کو سمجھ میں نہیں آیا آخر اچانک ہوا کیا۔ وہ چپ چاپ آگے بڑھ گئے۔ وزیر کے اسٹاف کی دھکا مکی سے ناراض اس شخص نے اپنی کرپان نکال لی اور احتجاج کے طور پر اپنے ہاتھ کی نس کاٹنے کی کوشش کی۔ این ڈی ایم سی کے گارڈوں نے اس شخص کو بڑی مشکل سے قابو کر پولیس کے حوالے کیا۔ حملہ آور کا نام ہروندر سنگھ ہے اور وہ دہلی کے وجے وہار میں رہتا ہے۔ وہ نعرے لگا رہا تھا ''و ہ بھرشٹ ہیں ، میں یہاں منتری کو تھپڑ ہی مارنے آیا تھا،وہ سبھی بدعنوان ہیں۔ اس نے آگے کہا کہ آج گورو تیغ بہادر کی شہادت کا دن ہے۔ حالات اور بھی برے ہوسکتے تھے میں نے ہی روہنی عدالت میں سکھرام کو بھی مارا تھا۔ میں سکھ ہوں ،چپل نہیں ماروں گا، صرف بھاشن دیتے ہیں بھگت سنگھ کو بھول گئے جس نے قربانی دی، مارو مارو مجھے خوب مارو میں پاگل ہوں۔ ان کے پاس گھوٹالے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، میں غلط نہیں ہوں۔
شرد پوارپر طمانچے کی گونج نے دہلی کی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اپوزیشن نے اس واقعے کی مذمت کی ہے لیکن اسے مہنگائی سے پیدا غصہ قراردے کر سرکار پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ وہیں کانگریس نے اس واقعے کے لئے بھاجپا نیتا یشونت سنگھ کو غیر ذمہ دارانہ بیان پر نشانہ بنایا۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ اور کانگریس صدر سونیا گاندھی نے پوار سے بات چیت کر پورے واقعے کی مذمت کی۔ کانگریس کے پارلیمانی وزیر ہریش راوت نے کہا یشونت سنہا کے بیان ' مہنگائی نہیں رکی تو تشدد ہوگا'واپس لینا چاہئے۔ایسی رائے بنانا غلط ہے وہیں بھاجپا نیتا یشونت سنہا نے کہا کہ یہ شخص میرے بیان سے پہلے ہی سکھرام کو تھپڑ مار چکا ہے۔ ایسے میں اسے مجھ سے جوڑا جانا ٹھیک نہیں ہے۔ بھاجپا کی لیڈر سشما سوراج کا تبصرہ تھا کہ بھاجپا اس کی مذمت کرتی ہے۔عدم تشددکے ذریعے ناراضگی جتائی جانا چاہئے۔پوار عمر کے سبب احترام کے لائق ہیں وہیں سب سے دلچسپ تبصرہ انا ہزارے کا تھا۔ انہوں نے پوار پر حملے کی اطلاع ملنے پر پہلے رد عمل کے طور پر پوچھا کہ ''صرف ایک تھپڑ؟'' بعد میں انہوں نے اس کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت میں تشدد کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا پوار کو تھپڑ پڑنا جمہوریت پر طمانچہ ہے۔ جنتا میں اس واقعہ ا کیا رد عمل ہوا ہے کچھ تبصرے پیش ہیں۔مرکزی وزیر شرد پوار کو پڑا تھپڑ کسی نیتا یا منتری پر نہیں بلکہ ان کے ذریعے بنائے گئے سسٹم پر ہے جس سے عام لوگوں کا پورا بجٹ بگڑ گیا ہے۔ وہ عام آدمی کیا کرے جس کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا ہو۔ دہلی والوں نے اسی طرح کی رائے زنی کی ہے۔ مہنگائی گھروں کے کچن کے ساتھ لوگوں کے خوابوں پر بھی حملہ کررہی ہے۔ایک انسان اپنے بچے کو پڑھا کر کچھ بنانے کے خواب دیکھنے سے پہلے یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اس کے لئے پیسے کیسے کیسے بچائیں۔ کیرل کی ایک طالباکا نظریہ ہے میور وہار کی ایک ورکنگ خاتون نے کہا یہ تھپڑ ایک عام آدمی کا نہیں پورے دیش کی جنتا کا ہے ۔ دیش کے نیتاؤں اور وزرا کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ جنتا اپنے طریقے سے جواب دینا سیکھ رہی ہے۔ اسے پانچ سال تک بہلا پھسلا کر بیوقوف نہیں بنا سکتے۔ کوٹلہ فیروز شاہ کی ایک خاتون کا کہنا تھا کہ پریشانی ہے تو لوگ ایسا کرنے کے لئے مجبور ہورہے ہیں۔ وزیر دفتر میں بیٹھ کر جو پالیسی تیار کرتے ہیں وہ عام آدمی کی کمر توڑنے والی ہوتی ہے ایسے میں لوگ کیا کریں ۔ ان کے پاس کوئی متبادل نہیں۔ سیوا نگر میں ایک سیاسی ورکر کا کہنا تھا پریشانی اپنی جگہ ہے لیکن ہر جگہ تھپڑ مارنا ٹھیک نہیں ہے۔ سبق سکھانا ہے تو چناؤ میں سکھائیں۔ لوگ بھی کیا کریں جب ان کے نمائندے امید پر کھرے نہیں اترتے تو وہ تیش میں آجاتے ہیں اور یہی تیش تھپڑ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ ایک تاجر کی رائے تھی سرکار جب سورہی ہو تو اسے جگانے کیلئے اس بہتر طریقہ اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ سپریم کورٹ کے وکیل آر کے شرما کا خیال ہے کہ لوگوں کا غصہ جائز ہے۔ وزیر ، نیتا اور ان کے رشتے دار کروڑوں اربوں میں کھیل رہے ہیں ۔ عام آدمی بھرپیٹ کھانے سے پہلے بھی سوچتا ہے کہ حالت خطرناک ہے اور دیش کے پالیسی سازوں کو اب سنجیدگی سے جنتا کے دکھ درد کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ میکس ہسپتال کے ڈاکٹر سمیر پاریکھ کا کہنا ہے کہ اپنی ناراضگی نکالنے کا یہ طریقہ کاپی کیٹ یعنی نقل کرنا کہا جاسکتا ہے۔ جب لوگ دوسرے کی نقل کرتے ہیں وہ کسی پر حملہ کرتے ہیں اور اسے چوٹ پہنچاتے ہیں تو وہ ایک بھدی پبلسٹی کے بھوکے ہوتے ہیں۔ حملہ کرنے والا پہلے کے واقعے سے کہیں نہ کہیں ضرور ترغیب پا چکا ہے اور اسے لگتا ہے کہ اسے بھی لوگوں کی توجہ مل سکتی ہے۔
شرد پوار پر ہوئے حملے سے سیاسی پارہ بھی تیز ہوگا۔ پوار کی پارٹی این سی پی اندر خانے کانگریس سے سخت خفا ہے ۔ اسے لگ رہا ہے کہ جس طرح سے کانگریس نے پوار کو مہنگائی کی علامت بنایا ہے اس کی وجہ سے حالات یہاں تک پہنچے۔ اگرچہ فوری طور پر کانگریس کے نیتا پوار کے بچاؤ میں اترے لیکن این سی پی اس واقعے سے بہت مایوس ہے۔ وزیر ہیوی صنعت پرفل پٹیل نے کہا بڑے نیتاؤں کی سلامتی پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہئے اور ان پر حملے کے بعد مہاراشٹر میں کچھ علاقوں میں پارٹی ورکروں کے مشتعل رویئے پر پٹیل نے صبر و تحمل رکھنے کی اپیل کی۔ معاملے کے پیچھے بھاجپا کا ہاتھ ہونے کا اندیشہ ہے ۔ انہوں نے کہا مجھے نہیں لگتا کہ اس میں کسی سیاسی پارٹی کا ہاتھ ہے اس بارے میں پارٹی اس لئے بھی ناراض ہے کہ کانگریس مسلسل مہنگائی کے مسئلے پر شرد پوار کو ہی آگے رکھتی تھی۔ بیشک بدعنوانی اور مہنگائی سے دیش پریشان ہے اور غصے میں ہے لیکن اس کا حل یہ نہیں کہ ہم چاروں طرف آگ لگانا شروع کردیں اور جو سامنے آئے اس پر ٹوٹ پڑیں۔ اس سے حل تو کیا نکلے گا ہاں چاروں طرف بدامنی ضرور پھیل جائیگی۔ وہیں سیاستدانوں کو بھی سمجھ لینا چاہئے کہ عوام کا موڈ کیا ہے۔ ہمارے سامنے مشرقی ایشیا کی مثال ہے جہاں ایک چھوٹی سی چنگاری نے دیش میں آگ لگا دی ہے۔ سیاستدانوں کو اس ٹرینڈ سے ڈرنا چاہئے۔
Anil Narendra, Anna Hazare, Congress, Daily Pratap, Maharashtra, Manmohan Singh, NCP, Sharad Pawar, Sonia Gandhi, Sushma Swaraj, Vir Arjun, Yashwant Sinha

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟