عدالتوں کو پورا اختیار ہے کہ وہ تیل کی قیمتوں میں اضافے پر مداخلت کریں



Published On 9th November 2011
انل نریندر
کھیل کمپنیاں کہتی ہیں ہمیں خسارہ ہورہا ہے اسی وجہ سے بار بار پیٹرول مصنوعات کی قیمتیں بڑھاتی ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ ہم نے تو پیٹرول ڈی کنٹرول کردیا ہے۔اب تیل کمپنیاں تیل کی قیمتیں طے کریں گی۔ یہ دلیلیں نہ تو عوام کو ہضم ہوتی ہیں اور نہ ماہرین کو اورنہ ہی اب عدالتوں کو۔ سوال اٹھتا ہے کہ کمپنیاں اگر خسارے میں ہیں تو پھر پورے دیش میں نئے پیٹرول پمپ کھولنے کے منصوبے کے لئے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ پیٹرول اور ڈیزل پر ٹیکس اگر کم کردیا جائے تو ان کے دام گھٹ جائیں گے۔ مگر افسوس جتانے کے باوجود حکومت کا رویہ حیران کرنے والا ہے۔ انڈین آئل کارپوریشن ہندوستان پیٹرولیم و بھارت پیٹرولیم دنیا کی سب سے زیادہ منافع کمانے والی 500 کمپنیوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے اگلے دو برسوں میں ملک بھر میں1100 نئے پیٹرول پمپ قائم کرنے کا پلان بنایا ہے۔ اس پر 5500 کروڑ روپے سے زیادہ کا خرچ آئے گا۔ یہ پیسہ کہاں سے آئے گا؟ جواب صاف ہے کہ جنتا کی گاڑھی کمائی سے اور کہاں سے؟ پیٹرول مرکز اور ریاستی حکومتوں کی بھی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ این ڈی اے عہد میں جب پیٹرول کو ڈی ریگولیٹ کیا گیا تھا اس وقت طے کیا گیا تھا کہ کچے تیل کی قیمت بڑھے گی تو حکومت ٹیکس کو ایڈجسٹ کرے گی تاکہ اس اضافے کا جنتا پر بوجھ نہ ڈالنا پڑے۔ ایسے میں موجودہ حکومت سرکار کو کیوں نہیں ٹیکس کم کرکے جنتا کو بڑھتی قیمتوں سے نجات نہیں دلاتی؟ اس وقت پیٹرول کی قیمت میں ایک بڑا حصہ ٹیکس کا ہوتا ہے۔ دہلی میں پیٹرول کی قیمت 68 روپے 65 پیسے فی لیٹر ہے جبکہ حقیقت میں تیل کی قیمت23.37 روپے ہے۔ یعنی باقی45.28 روپے ٹیکس کے ہیں۔ بھاجپا نیتا یشونت سنہا نے کہا ہے کہ1998ء میں جب این ڈی اے سرکار حکومت میں تھی تب کچے تیل کی قیمت 10 ڈالر فی بیرل ہوا کرتی تھی۔ جب اس کی حکومت گئی تو یہ 40 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی تھی لیکن اس کے باوجود اس وقت تیل کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ اس لئے نہیں ہوپایا کیونکہ اس حکومت نے اسے ٹیکسوں میں تال میل بٹھا لیاتھا۔ 2004ء میں پیٹرول کے دام 23.71 روپے فی لیٹر تھے اور اس کے بعد سے مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یعنی یوپی اے حکومت نے اپنے عہد میں 24 مرتبہ پیٹرول کے دام بڑھائے اور اس طرح یوپی اے نے اپنے عہد میں پیٹرول کی قیمت میں35 روپے لیٹر اضافہ تو کردیا ابھی بھی اس حکومت کا عہد بچا ہوا ہے پتہ نہیں اور کتنے دام بڑھائے گی؟ پیٹرول کی بار بار بڑھتی قیمتوں پر اب عدالتوں نے بھی غور کرنا شروع کردیا ہے۔ حال ہی میں کیرل ہائی کورٹ نے اس سمت میں پہل کی ہے۔ عدالت ہذا نے کہا کہ مہنگائی دھیمی موت کی طرح ہے اور حکومتیں ہاتھ نہیں کھڑا کرسکتیں ۔ یہ ہی نہیں عدالت نے انڈین آئل کارپوریشن اور ریلائنس پیٹرولیم کو اپنی بیلنس شیٹ اور سہ ماہی رپورٹ تین ماہ کے اندر پیش کرنے کی ہدایت بھی دی ہے۔کیرل ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اس بات پر بھی تنازعہ کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کیا عدالتیں اپنے اختیارات کے حدود تو پار نہیں کررہی ہیں؟ کیا عدالتوں کو ایسے اشوز میں دخل دینا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ راجستھان ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور آئینی کمیشن کے ممبر جسٹس شیو کمار کہتے ہیں کہ مفاد عامہ کو متاثر کرنے والی ہر چیز پر عدالت سماعت کرسکتی ہے۔ آئین ہمیں باعزت زندگی گذارنے کا حق دیتا ہے۔ عدالت کو لگتا ہے کہ بے تحاشہ بڑھتی قیمتوں سے یہ حق متاثر ہورہا ہے۔ وہ تو اس پر بھی سماعت کرسکتی ہے۔ کورٹ اس بات کی بھی جانچ کرسکتی ہے کہ قیمتیں صرف تاجروں کی منافع خوری کے سبب تو نہیں بڑھ رہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے وکیل ڈی کے گرگ بھی جسٹس کمار کی رائے سے متفق ہیں۔ وہ 1998ء میں پیاز کی قیمت پر سابق چیف جسٹس اور قومی انسانی حقوق کمیشن کے چیئرمین ایم این وینکٹ چلیا کے میڈیا میں آئے بیان کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ مسٹر چلیا نے کہا تھا کہ بڑھتی مہنگائی لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یہ ایک طرح سے عوام کی گاڑھی کمائی کو لوٹنا ہے۔ گرگ فرماتے ہیں کہ جب بات بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی ہو تو عدالت سماعت کرسکتی ہے۔ براہ راست تو نہیں لیکن درپردہ طور سے ایسا کئی بار ہوا ہے۔ غریبوں کو مفت اناج بانٹنے اور غریبوں کی تعداد پر سپریم کورٹ کے تبصرے اسی کے تحت آتے ہیں۔ حالانکہ براہ راست طور پر سپریم کورٹ نے کبھی مہنگائی یا بڑھی قیمتوں پر سماعت نہیں کی تھی بلکہ ایسی عرضیاں خارج کی ہیں۔ وہ ونے چندر جوشی کے معاملے کی مثال دیتے ہیں۔ اس میں کہا گیا تھا کہ حکمراں پارٹی نے اپنے چناؤ منشور میں مہنگائی کم کرنے کا دعوی کیا تھا جبکہ اس کے اقتدار میںآنے کے بعد مہنگائی بے تحاشہ بڑھی ہے۔ یہ وعدہ خلافی اور جنتا کے ساتھ دھوکہ ہے۔ دیش کے جانے مانے وکیل راجیو دھون میں مانتے ہیں کورٹ نے مہنگائی پر براہ راست کبھی سماعت نہیں کی لیکن پھر بھی حکومت کو بتانا پڑے گا کہ پیٹرول کی قیمتیں کیوں بڑھی ہیں؟ بین الاقوامی بازار میں قیمتیں بڑھنے کی وجہ یا پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی گھٹانے یا پھر تیل کمپنیوں کو زیادہ منافع دینے سے اگر مبینہ سرکار نے نہیں بلکہ تیل کمپنیوں نے بڑھائی ہے تو معاملہ مقابلہ جاتی قانون کے تحت آئے گا۔ تب یہ دیکھا جائے گا کہ کہیں اس کے پیچھے تیل کمپنیوں کی سازش تو نہیں ہے؟
Anil Narendra, Daily Pratap, Kerala High Court, Petrol Price, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟