مہنگائی دھیمی موت کی طرح ہے حکومتیں پلہ نہیں جھاڑ سکتیں


Published On 6th November 2011
انل نریندر
پیٹرول کے داموں میں تازہ اضافے کی چوطرفہ مخالفت ہونا فطری ہے۔ جنتا کا غصہ کھلی بغاوت کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ بھاجپا نے تو جنتا سے کھلی مخالفت کرنے کی اپیل کردی ہے۔ بھاجپا کے سینئر لینڈر یشونت سنہا کا کہنا ہے کہ دیش کی جنتا پہلے سے ہیں 12.21 فیصدی افراط زر شرح کا سامناکررہی ہے ۔ ایسے میں پیرول کے داموں کا بڑھنا جنتا پر دوہری مار کی مانند ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عوام اس کڑپٹ اور غیر ذمہ دار حکومت کو اکھاڑ پھینکے۔ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ اس ملک کی عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ حکومت کے اس منمانے قدم کے خلاف بغاوت کریں۔ بغاوت کئی طرح کی ہوتی ۔ تعاون نہ کرنا بھی ایک طرح کی بغاوت ہوگی۔ یوپی اے سرکار کے اس فیصلے سے اس کی اتحادی پارٹیاں بھی ناراض ہیں۔ یوپی اے میں دوسری سب سے بڑی پارٹی ترنمول کانگریس نے تو اشاروں میں حمایت واپسی تک کی دھمکی دے دی ہے۔ جمعہ کو ترنمول کانگریس پارلیمانی پارٹی کی کولکتہ میں ایمرجنسی میٹنگ ہوئی۔ممتا بنرجی نے کہا کہ ہمارے نیتامرکزی سرکار سے حمایت واپس لینے کے حق میں ہیں لیکن کوئی بھی فیصلہ وزیر اعظم کے وطن لوٹنے کے بعد ہی لیا جائے گا۔ ادھر خبر ہے وزیر اعظم وطن لوٹ آئے ہیں۔ ایک طرح سے انہوں نے پیٹرول کے داموں میں اضافے کو مناسب ٹھہرادیا ہے۔ فرانس میں انہوں نے کہا کہ بازار کو اپنے حساب سے چلنے دیا جائے۔ تیل کی قیمتوں کو اور ڈی کنٹرول کئے جانے کی ضرورت ہے۔ ڈی ایم کے این سی پی اور نیشنل کانفرنس نے بھی پیٹرول کے دام بڑھانے کی مخالفت کی ہے۔ ادھر انڈین آئل کارپوریشن کے چیئرمین آر ایس بتلا نے کہا کہ اگر سرکار ہدایت دیتی ہے تو ہم اضافے کو واپس لینے کو تیار ہیں۔
پیٹرول مصنوعات کی قیمتوں پر منموہن سنگھ حکومت کا ہمیشہ ایک ہی جواب رہا ہے ہم اس میں کچھ نہیں کرسکتے یہ فیصلہ تیل کمپنیوں کو ہی کرنا ہے۔ یہ کہہ کر سرکار اپنا پلہ جھاڑ لیتی ہے لیکن پیٹرول کی قیمتوں کے بارے میں بار بار اضافے پر کیرل ہائی کورٹ نے سخت موقف اپنایا ہے۔ اس نے کہا حکومتیں اس معاملے پر اپنی ذمہ داری سے پلہ نہیں جھاڑ سکتیں۔ اس کی مخالفت کے لئے سیاری پارٹیوں کا انتظار کرنے کی بجائے دیش کے لوگوں کو خود سامنے آنا چاہئے۔ عدالت ہذا نے انڈین آئل کارپوریشن اور ریلائنس پیٹرولیم کو اپنی بیلنس شیٹ اور سہ ماہی رپورٹ تین ہفتے میں پیش کرنے کی ہدایت دی۔ مفادعامہ کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کارگذار چیف جسٹس سی این رام چندرن نائن اور جسٹس پی ایس گوپی ناتھ نے زبانی رائے زنی میں کہا کہ پچھلے ایک سال میں تیل کے دام 40 فیصدی سے زائد بڑھ گئے ہیں۔ اس سے عام آدمی کو زبردست پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ مہنگائی دھیمی موت کی طرح ہے۔ سیاسی پارٹیاں مخالفت کررہی ہیں۔ صارفین احتجاج نہیں کرپارہے ہیں۔ بار بار اضافے کو انہیں برداشت کرنا پڑ رہا ہے ۔ عدالت نے کہا اس اضافے سے دو پہیہ اور چھوٹی کاریں چلانے والے شخص متاثر ہوتے ہیں امیر لوگ نہیں ۔ کیونکہ وہ ڈیزل کی مہنگی کار میں چلتے ہیں۔ ریاستی حکومت کے وکیل نے دلیلدی کہ یہ عرضی سیاسی اغراض پر مبنی ہے لیکن عدالت نے یہ کہتے ہوئے کہ سیاست میں بھی ضرور مفاد وابستہ ہوتا ہے، عرضی سماعت کے لئے داخل کرلی گئی ہے۔ حالانکہ عدالت کا کہنا تھا تیل مصنوعات کے دام طے کرنے کا اختیارمرکزی حکومت کا تھا۔ یہ پالیسی میٹر ہے۔ پیٹرول کی موجودہ قیمتوں میں اضافے کے معاملے میں ہم دخل نہیں دے سکتے۔ پیٹرول کے دام میں اضافہ قومی اشو ہے ہم اس پرروک نہیں لگا سکتے۔
Anil Narendra, Congress, Daily Pratap, Inflation, Kerala High Court, Petrol Price, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟