بھلے ہی دیر سے اٹھائے گئے پاکستانی قدم کا خیر مقدم



Published On 6th November 2011
انل نریندر
پاکستان کی کابینہ نے بدھ کے روز اتفاق رائے سے ایک دور رس فیصلہ لیا ہے۔ پاکستان نے بھارت کو انتہائی ترجیحاتی ملک تجارتی درجہ دے دیا ہے۔ پاکستان کے وزیر اطلاعات فردوس اشفاق عوان نے اسلام آباد میں اخبار نویسوں کو بتایا کہ یہ قومی مفاد میں لیا گیا فیصلہ ہے اس میں سبھی فریقین فوج ،دفاعی اداروں کی رضامندی لی گئی ہے۔ اس فیصلے سے دونوں ممالک کے درمیان کاروبار آنے والے تین برسوں میں تین گنا بڑھ سکتا ہے۔ ہندوستان نے تو 1996 میں ہی پاکستان کو ایم ایف این کا درجہ دے دیا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان کاروبار ابھی 2.6 ارب ڈالر ہے۔ سی آئی آئی کا کہنا ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں یہ آٹھ ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ ہندوستان کو ایم ایف این کا درجہ دینے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان تجارت میں اب بھارت کو دیگر سانجھے داروں کے مطابق مانے گا۔ اس سے باہمی کاروباری اقتصادی رشتے مضبوط ہوں گا۔ بھارت کو ایم ایف این کا درجہ مہنگائی سے بھارت ۔پاکستانی عوام کو بھاری راحت دے سکتا ہے۔ بھارت کو ایم ایف این دینے سے پاکستانی عوام کو دوائیاں 55 فیصدی، پھل ، سبزیاں40 فیصدی اور چینی 30 فیصدی تک سستی مل سکتی ہے۔پاکستان سے زبردست آرڈر ملنے کا امکان دیکھ کر ہندوستانی صنعت بھی کافی خوش ہے۔ ہندوستانی کمپنیاں خاص کر انجینئرنگ دوا اور کیمیکل سیکٹر میں پاکستان نے مشترکہ صنعت لگانے کے امکانات بھی کھولتی ہے۔ ایم ایف این کا درجہ نہ صرف ہندوستانی کاروباریوں کو زیادہ برآمدات کرنے کا راستہ صاف کرے گا بلکہ دونوں ملکوں کی کمپنیوں کو آپس میں مشترکہ صنعتیں قائم کرنے میں بھی مدد دے گا۔
پاکستان نے بھارت کو سب سے ترجیحاتی ملک کا درجہ دینے کا فیصلہ بھلے ہی بہت تاخیر سے کیا ہے پھر بھی اس فیصلے کا دونوں ملکوں کے رشتوں پر اچھا اثر پڑنا طے ہے۔ آپسی اعتماد بحالی کی کوشش میں اسلام آباد کی جانب سے اٹھایا گیا یہ ایک بڑا قدم ہے۔ پاکستان کی حکومت نے یہ فیصلہ لیتے ہوئے ہند۔ چین کی تجارت کا جس طرح سے حوالہ دیا ہے اس سے صاف ہے کہ دیر سے صحیح اسلام آباد کو یہ احساس ہوا ہے کہ سیاسی محاذ پر نااتفاقیاں ہونے کے سبب آپسی تجارت کو ٹھپ کرنا صحیح نہیں ہے۔ آخر سرحدی تنازعے کے باوجود بھارت اور چین کاروبار کے مورچے پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں۔ سرحد کے دونوں طرف ایسی کئی چیزیں ہیں جن کی دونوں ملکوں کو ضرورت ہے۔ اب پڑوس میں کفایتی چیز ہونے کے باوجود اسے کسی دوسرے دیش سے مہنگے دام پر منگانے کی مجبوری ختم ہوجائے گی۔ اتنا ہی نہیں اس سے غیر قانونی کاروبار پر بھی لگام لگے گی۔ دراصل بھارت کے ساتھ اقتصادی تعلقات ٹھپ رکھ کر پاکستان پہلے ہی بہت نقصان اٹھاچکا ہے۔ آج عالم یہ ہے کہ کسی جنوبی ایشیا میں سافٹا کے تحت سری لنکا کے ساتھ بھارت کا مستثنیٰ تجارت سمجھوتہ ہے۔ بھارت۔ پاکستان کو اس سمت میں تو آگے بڑھنا ہی ہوگا۔ کاوباری ویزا قانون کو آسان بنانے کا کام بھی کرنا ہوگا تبھی دونوں دیشوں کے درمیان مضبوط اقتصادی رشتے قائم ہوں گے۔ ویسے دونوں ملکوں کے درمیان کاروباری رشتوں کی بنیاد تو پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے ساتھ ہی رکھ دی گئی تھی لیکن ان کی موت کے بعد ان کے جانشینوں نے عام طور پر بھارت مخالف نظریہ اپنایا جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے رشتے خوشگوار نہ ہوسکے۔ پاکستان نے کشمیر کا مسئلہ اٹھایا اور آج بھی اس پر قائم ہے جبکہ ہندوستان کو سب سے بڑی شکایت پاکستان کی سرزمین سے دہشت گردوں کے ذریعے چھیڑا گیا جہاد ہے۔ یہ دونوں مسئلے آج بھی قائم ہیں لیکن ان کے رہتے دونوں ملکوں میں تجارت نہ ہو یہ دلیل ٹھیک نہیں ہے۔ ویسے بھی پاکستان اس وقت اپنی زندگی کے سب سے نازک دور سے گذر رہا ہے۔ پاکستانی حکومت کو ایک طرف جہاں فوج اور اپنے یہاں انتہا پسند گروپوں کے دباؤ میں کام کرنا پڑ رہا ہے وہیں دوسری طرف اس کی اعلان کردہ اور غیر محفوظ آتنک وادی گروپ پاکستان کو ایک ملک کی شکل میں تباہ کرنے پر آمادہ ہے۔ اس کے علاوہ آج ساری دنیا پاکستان کو ایک ناکام ملک سمجھتی ہے۔ آج پاکستان کے امریکہ سے بھی رشتے تلخی پر پہنچ چکے ہیں۔ ایسے میں بھارت کے ساتھ رشتوں میں بہتری کی کوششیں پاکستان کے لئے بھی یقینی طور پر چنوتی بھری رہیں گے۔ جیسے بھارت میں ایسے عناصر کی کمی نہیں ہوگی جو دونوں ملکوں کے قریب آنے سے بے چین ہوں گے۔ اقتصادی دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑا پاکستان آج دنیا کے سامنے آتنکی خطرے کی علامت بنتا جارہا ہے ایسے میں صاف نیت کے ساتھ دوستی کی یہ پہل یقیناًاسے مشکلوں سے نکلنے میں مددگار ہوگی۔ جیسا کہ شری اٹل بہاری واجپئی نے کہا کہ ہم سب کچھ اور بدل سکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں بدل سکتے اور آخر کار پڑوسی کے کام تو پڑوسی ہی آتا ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, India, Most Favourd Nation, Pakistan, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟