نہ تو میں مہنگائی کیلئے ذمہ دار ہوں نہ ہی اسے کم کرسکتا ہوں




Published On 22nd October 2011
انل نریندر
مسٹر منموہن سنگھ کی یہ یوپی اے حکومت کمال کی ہے۔ اس حکومت میں کسی بھی وزیر کے جو نظریات ہوں وہ انہیں کہہ ہی دیتا ہے اور اس کے لئے وہ کسی کو بھی جوابدہ نہیں ہے۔ وزیر اعظم ایسے بیانوں کو اتحادی مجبوری کہہ کر ٹال دیتے ہیں لیکن ان سے پتہ چلتا ہے کہ منموہن سنگھ کی کیبنٹ میں ان کی کتنی عزت ہے اور وہ کتنے طاقتور ہیں۔ ضمنی چناؤ میں ملی کراری شکست کے بعد اب کانگریس کی ساتھی پارٹیوں نے بھی وزیر اعظم اور کانگریسی پارٹیوں کو ہار کے لئے ذمہ دار ٹھہرانا شروع کردیا ہے۔ مہاراشٹر کی کھڑک واسلا اسمبلی سیٹ پر ملی ہار سے بوکھلا گئے وزیر ذراعت شرد پوار نے براہ راست وزیر اعظم پر ہی حملہ بول دیا ہے۔پوار نے ایک مراٹھی روزنامے کی طرف سے ممبئی میں منعقدہ ایک تقریب میں کہا کہ پچھلے دنوں مختلف گھوٹالوں کے سلسلے میں سرکار نے مضبوط لیڈر شپ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پوار نے کہا کہ ٹوجی اسپیکٹرم گھوٹالے کے سلسلے میں جنتا یہ سوال پوچھ رہی تھی کہ پردھان منتری پورے معاملے میں مداخلت کیوں نہیں کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا ایسے وقت جبکہ لیڈرشپ کو مضبوطی کے ساتھ اس کی صفائی دینی چاہئے تھی مرکزی حکومت کی طرف سے کچھ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے آگے کہا مختلف گھوٹالوں کے سبب عوامی رائے مرکزی حکومت کے خلاف گئی ہے اور اس سے سرکار کی ساکھ کو دھکا لگا۔ سرکار کی سست روی کا نتیجہ یہ ہوا کہ عدلیہ نے انتہائی سرگرمی دکھاتے ہوئے مختلف قدم اٹھائے۔ انا ہزارے اور یوگ گورو بابا رام دیو کے بھرشٹاچار مخالف آندولن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں منتخب نمائندوں کو پوری طاقت سے اپنا کردار نبھانا چاہئے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو دیگر طاقتوں کو سامنے آنے کا موقعہ ملے گا جو جمہوری نظام کے لئے اچھی بات نہیں ہے۔ شرد پوار یہیں نہیں رکے، بدھوار کو نئی دہلی میں اقتصادیات کے مدیروں کی کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے پوار نے کہا کہ نہ تو میں مہنگائی کے لئے ذمہ دار ہوں اور نہ ہی اسے کم کرنا میرا کام ہے۔ میں وزیر زراعت یعنی ایک کسان ہوں اور میرا کام اناج پیدا کرنا ہے۔ میری وزارت کی یہ بھی کوشش رہتی ہے کسان کو اس کی محنت کا پورا صلہ ملے۔
ہم کو شرد پوار کی باتیں سن کر زیادہ حیرانی نہیں ہوئی۔ یہ پہلے بھی کانگریس لیڈرشپ پر سیدھے حملے کرچکے ہیں۔ اگر ایسے بیانوں کا اپوزیشن پارٹی فائدہ اٹھائے تو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ بھاجپا پوار کے بیان سے خوش ہیں۔
پارٹی کا کہنا ہے کہ یوپی اے ڈوبتا جہاز ہے اور اب اس سے بھاگنے کی سبھی پارٹیاں کوشش کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی کے وزیر اعظم کے ساتھ بنگلہ دیش جانے سے انکار کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ بڑی اتحادی پارٹی اور وزیر زراعت شرد پوار یوپی اے کو چھوڑنے کی تیاری میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ایک سینئر وزیر اپنے ہی وزیر اعظم اور سرکار کی پالیسیوں پر اس طرح کے سوال اٹھاتا ہے تو مجموعی ذمہ داری کہاں گئی؟ ذمہ داری کی بات کریں تو شری پوار تو صاف کہتے ہیں کہ مہنگائی کم کرنا میرا کام نہیں۔ اگر یہ کام شرد پوار کا نہیں تو کس کا ہے؟ اور اگر وہ اپنی سرکار کی پالیسیوں سے اتنے ناخوش ہیں اور متفق ہیں تو انہیں سرکار میں رہنے کا کوئی جواز سمجھ میں نہیں آتا۔ کیوں نہیں شرد پوار منموہن سنگھ سرکار سے استعفیٰ دے دیتے۔ ہمیں پردھان منتری پر بھی رحم آتا ہے جو وزیر اعظم اپنے سینئر وزرا پر لگام نہیں کس سکتا وہ پورے دیش کو کیسے چلا سکتا ہے؟ جیسے دیش چل رہا ہے وہ سب کے سامنے ہی ہے۔
Anil Narendra, Baba Ram Dev, BJP, Congress, Corruption, Daily Pratap, Inflation, Manmohan Singh, Price Rise, Sharad Pawar, UPA, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟