امریکہ ہر برس 120 ارب ڈالر مختلف جنگوں پر خرچ کرتا ہے



Published On 18th October 2011
انل نریندر
کارپوریٹ گھرانوں کی لوٹ مار کے خلاف امریکہ میں پچھلے کئی دنوں سے مظاہرے جاری ہیں۔ "اوکوپائی وال سٹریٹ" نامی اس تحریک کو ملک گیر حمایت حاصل ہونے لگی ہے۔ یوروپ، امریکہ اور ایشیا میں قریب80 ملکوں کے 950 شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر اترآئے ہیں۔ اوکوپائی وال سٹریٹ تحریک کے ہزاروں مظاہرےن نے نیویارک میں واقع تاریخی ٹائمس اسکوائر پر زبردست مظاہرہ کیا۔ اس سے مین ہیٹن میں ٹریفک ٹھپ ہوگیا اور پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔ کم سے کم 88 لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے24 لوگ سٹی بینک کی ایک برانچ میں زبردستی گھس گئے تھے جبکہ45 لوگوں کو ریلی نکالنے کو لیکر گرفتار کیا گیا۔ یہ لوگ کارپوریٹ گھرانوں میں لوٹ مار، مالی راحت پیکیج کے خلاف پچھلے ایک ماہ سے مظاہرہ کررہے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے آک لینڈ شہر میں ہزاروں لوگوں اور آسٹریلیا کے سڈنی شہر میں تقریباً دو ہزارلوگوں نے مظاہرہ کیا۔ اس کے علاوہ ٹوکیو، تائیپے، منیلا میں بھی لوگوں نے فیس بک پر مظاہروں کو حمایت دیتے ہوئے اقتصادی نا انصافی کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ ایسے میں ایک مظاہرے میں شامل شخص جورالی نے کہا کہ ہم صرف حکومت بدلنے کی بات نہیں کررہے ہیں زیادہ تر لوگ سسٹم میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں جس طرح سیاست پر پیسہ حاوی ہے وہ سسٹم بدلے۔ بڑے بڑے کاروباری ادارے اور بڑی بڑی کمپنیاں سیاست پر قبضہ کئے بیٹھی ہیں۔ یہ سب ختم ہونا چاہئے۔
امریکہ کی طاقتور فوجی پارلیمانی کمیٹی نے وزیر دفاع لیون پنیٹا کے لئے اس وقت اپنا بچاﺅ مشکل ہوگیا جب کمیٹی کے دیگر ممبران نے انہیں گھیرتے ہوئے کہا کہ ایسے وقت میں جب دیش اقتصادی بحران کا شکار ہے تو ہر برس 120 ارب ڈالر سالانہ مختلف ملکوں میں جنگ پر خرچ کرنے کا کیا جواز ہے؟ اپوزیشن ری پبلیکن تیز طرار لیڈر چیلی پنگری نے پینیٹا سے سوال کیا کہ جب مالی خسارے کی وجہ سے دیش مالی بحران کا سامنا کررہا ہے تو امریکہ جنگوں پر اربوں ڈالر کیوں خرچ کررہا ہے؟ وزیر دفاع نے اپنا بچاﺅ کرتے ہوئے کہا 2014ءتک افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی پوری ہوجانے کی امید ہے۔ امریکہ پر 9/11 کے آتنکوادی حملوں کے دس برس بعد فوج اور ڈیفنس اشو پر سماعت کے دوران بنیادی طور سے ڈیفنس بجٹ پر بحث ہوئی۔ میٹنگ سے پہلے 15 منٹ تک جنگ مخالف مظاہرین کی نعرے بازی کے سبب میٹنگ ٹھپ پڑی رہی۔ وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان، یمن، صومالیہ کے آتنک وادی دیش کے لئے خطرہ پیدا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا امریکہ کی خاص توجہ اس طرف ہے۔ افغانستان القاعدہ اور دیگر آتنکیوں کے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ نہ بننے پائے۔ اس لئے اگر امریکہ جلدی میں وہاں سے اپنی فوجیں ہٹا لیتا ہے تو حالات پھر سے خراب ہوںگے اور القاعدہ کا وہ ٹھکانہ بن جاتا ہے تو عالمی دنیا امریکہ سے ہی سوال کرے گی۔ ان کا مطلب صاف تھا کہ بجٹ خرچ کرو گے تو گھاٹا تو ہوگا۔ ادھر نوسک کلب آف نیویارک کو خطاب کرتے ہوئے امریکہ کی وزیر خارجہ کلنٹن نے دیش میں پالیسی سازوں کو بھارت اور برازیل جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں والے دیش سے سبق لینے کے لئے کہا۔ جنہوں نے معیشت کو اپنی خارجہ پالیسی کے مرکز میں رکھا۔ محترمہ کلنٹن نے کہا کہ جب ان کے لیڈر خارجہ پالیسی سے وابستہ چنوتیوں پر کوئی فیصلے کی بات کرتے ہیں تو ان کا پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ ان کی معاشی ترقی میں کیسے مدد گار ہوگا۔ کلنٹن کا مطلب صاف تھا کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کافی حد تک امریکی معیشت پر حاوی ہورہی ہے اور یہ جنگیں امریکہ کو بھاری پڑ رہی ہیں۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Vir Arjun, America, Occupy Wall Street, Times Square,Australila, Afghanistan,

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟