کیا کانگریس حصار ضمنی چناﺅسے سبق لے گی؟



Published On 19th October 2011
انل نریندر
ہریانہ کی حصار لوک سبھا سیٹ پر ہوئے ضمنی چناﺅ پر سارے دیش کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ اس سیٹ پر ہریانہ جن ہت کانگریس کے ایم پی و سابق وزیراعلی چودھری بھجن لال کی موت کے سبب یہ سیٹ خالی ہوئی تھی۔حصار میں جنتا کی نظریں اس لئے بھی لگی تھیں کیونکہ یہاں بھجن لال کے بیٹے کلدیپ بشنوئی اور سابق وزیراعلی و انڈین لوکدل کے صدر اوم پرکاش چوٹالہ کے بیٹے اجے چوٹالہ میدان میںتھے کیونکہ ہریانہ میں کانگریس کا راج ہے اس لئے وزیراعلی بھوپندر سنگھ ہڈا و کانگریسی امیدوار جے پرکاش کی ساکھ بھی داﺅ پر لگی تھی۔ انا ہزارے بھی یہاں کانگریس کو ہرانے کےلئے ڈٹے ہوئے تھے۔ دیش یہ بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ انا کا کتنا اثر ووٹوں پر پڑتا ہے۔چناﺅ انتہائی چیلنج بھرا تھا اور اس پروقار چناﺅ میںبازی ماری بھاجپا اور ہجکا محاذ کے امیدوار کلدیپ بشنوئی نے اپنے قریبی حریف اجے سنگھ چوٹالہ کو 6323 ووٹوں سے ہرا کر یہ سیٹ جیت لی۔ کانگریس تیسرے نمبر پر رہی۔ پردیش میں حکمراں کانگریس امیدوار اورتین بار ایم پی رہے جے پرکاش 149785 ووٹ لیکر تیسرے مقام پر رہے اور ان کی ضمانت ضبط ہوگئی۔ مقابلہ اتنا کانٹے دار تھا کہ ہار جیت میں صرف6323 ووٹوں کا ہی فرق رہا۔ بشنوئی کو 355941 ووٹ ملے تو چوٹالہ کو349681 ووٹ ملے۔ سال2009 کے چناﺅ میں بھی کانگریسی امیدوار جے پرکاش تیسرے مقام پر تھے اس لئے کانگریس دلیل دے سکتی ہے ہم پہلے بھی تیسرے مقام پر تھے اور اب بھی تیسرے پر رہے لیکن فرق یہ ہے کہ2009 میں جے پرکاش کو204539 ووٹ حاصل ہوئے تھے جو اس مرتبہ149785 رہ گئے۔
 کانگریس کا ووٹ فیصد گرا ہے۔ انا فیکٹر کتنا حاوی رہا کہنا مشکل ہے۔ حالانکہ انا ہزارے نے کہا حکمراں پارٹی کو چناﺅ نتیجے سے سبق لینا چاہئے ورنہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں بھی وہ خود کانگریس کے خلاف پروپگنڈہ کرےںگی۔ ہزارے نے کہا حصار لوک سبھا سیٹ پر ضمنی چناﺅ کانگریس ہار گئی۔ اب کانگریس ٹیم انا کو قصوروار نہ ٹھہراکر آئندہ پالیمنٹ کے اجلاس میں سخت بدعنوانی انسداد قانون بنانا چاہئے کیونکہ بدعنوانی نے عام آدمی کا جینا حرام کردیا ہے۔ جنتا کی قوت برداشت کم ہوگئی ہے اور اس لئے اس نے کانگریس کو مسترد کردیا ہے۔
 انا نے اپنے بلاگ میں سخت لہجے میں کہا کہ کانگریس نے اس چناﺅ سے اگر سبق نہیں لیا تو دیش میں اس کی یہی حالت ہوگی۔ حالانکہ قومی سیاست کے پس منظر میں اس ضمنی چناﺅ کی کوئی اہمیت نہیں لیکن اس سے جنتا کی کانگریس کے خلاف ناراضگی ضرور ظاہر ہوتی ہے۔ حصار میں چودھری بھجن لال کا کافی اثر تھا جس کا فائدہ اور ہمدردی کا ووٹ بشنوئی کو ہوا لیکن چوٹالہ کو اتنے ووٹ ملنے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ چودھری اوم پرکاش چوٹالہ نے کچھ حد تک اپنی ساکھ پھر سے بنا لی ہے۔ ریاست کے وزیر اعلی بھوپندر سنگھ ہڈا کے لئے یہ ضرور اشارہ ہے کہ ہریانہ میں وہ اور ان کی حکومت اتنی مقبول نہیں ہے جتنا وہ سمجھے بیٹھے تھے۔ مستقبل قریب میں اور کئی چناﺅ ہونے ہیں کانگریس کو دیوار پر لکھی وارننگ کو سمجھنا چاہئے کہ ماحول اب اس کے خلاف چل رہا ہے۔
Ajay Chautala, Anil Narendra, Anna Hazare, Civil Society, Congress, Daily Pratap, Haryana, Hissar By Poll, Kuldeep Bishnoi, Lokpal Bill, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟