ایک اوربہادر قلم کا سپاہی آتنک کی بلی چڑھا

 
Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
3  جون 2011 کو شائع
انل نریندر
ایک اور قلم کا سپاہی آتنکواد کی بلی چڑھ گیا۔ پاکستان کا ایک بہادر صحافی سید سلیم شہزاد ہفتے بھر سے لا پتہ تھا۔ منگلوار کو پنجاب صوبے سے اس کی لاش برآمد ہوئی۔ لاش کی حالت دیکھ کر لگ رہا ہے کہ مارنے سے پہلے اسے بری طرح سے پیٹا گیا ہے۔ لاپتہ ہونے سے دو دن پہلے شہزاد نے ایک مضمون میں پاکستانی بحریہ کے کچھ افسروں اور آتنکی تنظیموں القاعدہ کی سانٹھ گانٹھ کا ذکر کیا تھا۔ سید سلیم شہزاد40 سال کے تھے۔ وہ اپنے پیچھے بیوی عقیلہ، دو لڑکے فحاد14 سال، اورسید8 سال و ایک بیٹی امینہ 12 سال کو چھوڑ کر آتنک واد کی بلی چڑھ گئے۔شہزاد ایشیا ٹائمز( آن لائن) اخبار ہانگ کانگ کے پاکستانی بیورو چیف تھے۔ شہزاد نے دو کتابیں ان سائٹ القاعدہ اینڈ طالبان دی بی آرڈ بن لادن اینڈ 9/11 بھی لکھی تھیں۔ شہزاد نے کچھ وقت کیلئے ٹائمس آف انڈیا کے لئے بھی رپورٹنگ کی تھی۔
سید سلیم شہزاد کی لاش منگلوار صبح لاہور سے قریب200 کلو میٹر اولم قصبے کے سرائے عالمگیر علاقے سے ایک نہر سے ملی۔ پاس ہی میں اس کی کار لاوارث حالت میں کھڑی ملی اور لاش پر اذیتوں کے نشان صاف تھے۔ اطالوی نیوز ایجنسی کے لئے بھی کام کرنے والے شہزاد اکثر اپنی رپورٹنگ میں پاکستان۔ افغانستان کے دہشت گردوں ، پاکستانی اداروں کے ساتھ ان کے روابط کے بارے میں لکھتے رہتے تھے۔ لاپتہ ہونے سے2 دن پہلے شہزاد نے اپنے ایک آرٹیکل میں پاکستانی بحریہ کے کچھ افسروں اور دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی سانٹھ گانٹھ کے بارے میں مفصل طور پر ذکر کیا تھا۔ شہزاد آئی ایس آئی کے نشانے پر کافی وقت سے تھے۔ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی آئی ایس آئی دے چکی تھی۔ ایک چینل جی او ٹی وی نے ایک کالی سفید تصویر دکھائی جس میں شہزاد کے چہرے پر ٹارچر کئے جانے کے نشان صاف دکھائی دے رہے تھے۔ 27 مئی کو شہزاد نے آرٹیکل لکھا جس کا عنوان تھا’’ القاعدہ ہیڈ وانڈ آف پاکستان اسٹرائک سیریا‘‘ ٹائمس آن لائن میں یہ لکھا گیاتھا ۔ اس مضمون میں انہوں نے بتایا تھا کہ پی این ایس مہران بحری اڈے پر 22 مئی کو القاعدہ کا جو حملہ ہوا تھا تب القاعدہ اور بحریہ کے افسروں کے درمیان بات چیت کے ٹوٹنے کے بعد ہوا تھا۔ القاعدہ چاہتا تھا کہ پاکستانی بحری افسر ان کے کچھ حمایتی جو پاکستانی بحریہ کے قبضے میں ہیں انہیں چھوڑا جائے۔ القاعدہ آتنکی روابط کے چلتے گرفتار کئے گئے بحریہ کے ملازمین کی رہائی چاہتا تھا۔ ایتوار کی شام کو اسلام آباد میں واقع اپنے گھر سے نکلنے کے بعد یہ صحافی لا پتہ ہوگیا تھا۔ وہ بحریہ کے مہران بحری اڈے پر آتنکی حملے سے متعلق ایک ٹی وی پروگرام میں حصہ لینے کے لئے ’’دنیا‘‘ نیوز چینل کے دفتر جا رہے تھے۔
پاکستانی میڈیا میں ایسی خبریں آئی تھیں کہ ملک کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے انہیں اغوا کرلیا ہے۔ کئی انٹر نیشنل صحافی تنظیموں اور انسانی حقوق تنظیموں نے پاک سرکار سے شہزاد کا پتہ لگانے کی اپیل کی تھی۔ شہزاد کے قتل کی ذمہ داری ابھی تک کسی دہشت گرد تنظیم نے نہیں لی ہے۔ شہزاد کی موت سے پتہ چلتا ہے پاکستان میں قلم کے سپاہی اپنی جان ہتھیلی پر لیکر زندہ ہیں۔ ہم مسٹر سید سلیم شہزاد کو سلام کرتے ہیں اور ان کے کنبے کے افراد کو کہنا چاہتے ہیں کہ وہ دکھ کی اس گھڑی میں تنہا نہیں ہیں، ہم ان کے ساتھ ہیں۔
Tags: Anil Narendra, Daily Pratap, ISI, Islamabad, Journalist Killed in Pakistan, Pakistan, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟