بچھنے لگی سیاسی بساط!

نائب صدر جمہوریہ کے چناو¿ کی تاریخوں کے اعلان کے ساتھ ہی سیاسی گہما گہمی شروع ہو گئی ہے۔پارلیمنٹ کے حالانکہ دونوں ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے پارٹی وائز تجزیہ میں حکمراں این ڈی اے کے پاس اپنے امیدوار کو جتانے کے لئے درکار نمبر تو ہے لیکن پھر بھی لگتا ہے اس بار یہ چناو¿ آسان نہیں ہوگا ۔اپوزیشن چیلنج دینے کی تیار میں لگی ہوئی ہے ۔بیشک اپوزیشن چیلنج تو دے سکتی ہے لیکن بغیر بڑی سیندھ کے الٹ پھیر کرنے کی پوزیشن میں نہیں لگتی لیکن سیاسی بے یقینیوں کا کھیل ہے ۔کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ نائب صدر کے چناو¿ میں پارٹی لائن پر کوئی وہپ جاری نہیں ہوگا۔ممبران پارلیمنٹ کو اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دینے کا حق ہوتا ہے اس لئے ایسے چناو¿ میں کراس ووٹنگ کا بڑا خطرہ بنا رہتا ہے ۔پہلے بات کرتے ہیں حکمراں فریق کی ۔بھاجپا اور اس کی ساتھی پارٹیوں کی بھاجپا چاہے گی کہ نائب صدر کے عہدے کے لئے ایسا امیدوار چنا جائے جو ان کا حمایتی ہو ۔اور سرکار کی لائن پر چلے۔یہ کام جگدیپ دھنکھڑ نے شروع شروع میں بخوبی میں کیا تھا۔یہ بات اور ہے ان کا عہد کا خاتمہ اچھا نہیں ہوا ۔ادھر آر ایس ایس چاہتی ہے جو بھی امیدوار ہو وہ اس کی پسند اور حمایتی ہو وہ سرکار کی لائن پرچلنے والا نہیں ہو ۔ایک نیتا نے کہا کہ پچھلی بار جب دھنکھڑ کو نائب صدر بنایا گیا تھا اس وقت بھی سنگھ پریوا میں اسے لے کر بحث چھڑی ہوئی تھی ۔اس بار تقریباً سبھی مان رہے ہیں کہ آر ایس ایس اپنی آئیڈیا لوجی کو سمجھنے والا امیدوار چاہتا ہے ۔ساو¿تھ انڈیا کی سیاسی پارٹیاں چاہتی ہیں کہ جب صدر نارتھ انڈیا سے ہے تو کم سے کم نائب صدر بھی ساو¿تھ انڈیا کا ہو ۔اس سے دیش میں اتحاد پیدا ہوگا۔ وہیں یہ جانتے ہوئے کہ بھاجپا کا پلڑا بھاری ہے پھر بھی کانگریس انڈیا اتحاد ایک مشترکہ امیدوار اتارنے کی حکمت عملی پر کام کررہا ہے ۔کانگریس نیتا راہل گاندھی 7 اگست کو ڈنر پر اپوزیشن اتحاد انڈیا اتحاد بلاک کے لیڈروں کے ساتھ تبادلہ خیال کریں گے ۔ذائع کا کہنا ہے پلان بہار یا آندھرا پردیش کے کسی نیتا کو امیدوار بنانے کا ہے جس میں بھاجپا کے دو سب سے بڑے اتحادیوں کی پی ڈی پی اور جے ڈی یو کو الجھن میں ڈالا جاسکے ۔اس چناو¿ کے بہانے کانگریس کی نظر اپوزیشن اتحاد پر قائم کر طاقت کا مظاہرہ کرنے کی اور این ڈی اے کو الجھن میں ڈالنے پر ہے ۔دراصل بھاجپا اپنے دم پر چناو¿ جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اسے ہر حال میں اپنے دونوں سب سے بڑے اتحادیوں جے ڈی یو ،پی ڈی پی کی حمایت چاہیے ۔کانگریس کے حکمت عملی ساز مانتے ہیں کہ اگر اپوزیشن کا امیدوار آندھرا پردیش یا بہار سے ہوا تو علاقائی توقعات کے ساتھ توازن بٹھانے کے لئے نتیش کمار یا چندر بابو نائیڈو الجھن میں پڑ جائیں گے ۔آندھرا پردیش کے ہی وائی ایس آر سی پی جن کے راجیہ سبھا میں سات ممبر ہیں اپوزیشن کے ساتھ آسکتے ہیں ۔اگر اس چناو¿ میں ایک بھی اتحادی پارٹی ٹوٹتی ہے تو این ڈی اے میں پھوٹ کا سندیش جائے گا ۔کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ بھاجپا میں بھی اس مسئلے پر ایک رائے نہیں ہے ۔آر ایس ایس سے جڑی آئیڈیا لوجی والے بھاجپا ایم پی سنگھ کے کہنے پر اگر امیدوار ان پر بھاجپا ہائی کمان کے ذریعے تھوپا گیا تو وہ کراس ووٹنگ بھی کر سکتے ہیں ۔حالانکہ میری رائے میں یہ مشکل ہوگا ۔لیکن سیاست میں کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا یہ کسی سے چھپا نہیں کہ بھاجپا کے اندر ایک گروپ ایسا بھی ہے جو جس طرح سے جگدیپ دھنکھڑ کو بے عزت کرکے ہٹایاگیا اس سے وہ خوش نہیں ہے ۔سرکار میں اس وقت کانگریس کے جس طرح سے رشتے ہیں اسے دیکھ کر نہیں لگتا اپوزیشن سرکار کے امیدوار کو حمایت کرے گی ۔کانگریس کے ساتھ سرکار کے سینئر وزراءکے رشتے بہت بگڑے ہوئے ہیں ۔سابق نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ سے کانگریس کی مبینہ قربتوں کو لے کر جس طرح سے کہانیاں بنائی گئیں اس سے بھی بھاجپا خوش نہیں ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے اپوزیشن انڈیا اتحاد نائب صدر کے لئے کسی او بی سی یا مسلم نام پر غور کررہا ہے ۔انڈیا اتحاد کے کچھ نیتاو¿ں کی تجویز ہے کہ اپوزیشن کو نائب صدر کاچناو¿ جمہوریت بچانے کی لڑائی کی شکل میں لڑنا چاہیے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

سیکس ،ویڈیو اور وصولی!

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘